’عوام کو ملی ہے راحت کی سانس

تاثیر۵       جون ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

2024کا مینڈیٹ سامنے آتے ہی دہلی میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ بر سر اقتدار این ڈی اے اور اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ کے لیڈروں کے درمیان اپنے اپنے خیموں میں حکومت سازی پر تبادلۂ خیالات کا سلسلہ جاری ہے۔اس درمیان نریندر مودی نے کل بدھ کے روز بطور پی ایم اپنا استعفیٰ صدر دروپدی مرمو کو سونپ دیا۔ اس سے قبل اپنی کابینہ کی آخری میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے نریندرمودی نے کہا،’’سیاست میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ ہم فاتح ہیں، لیکن دوسرے لوگ جشن منا رہے ہیں۔ ہماری حکومت نے بہت اچھا کام کیا ہے۔‘‘ کابینہ میٹنگ کے بعد منعقد این ڈی اے کی میٹنگ بدھ این ڈی اے کی تمام حلیف جماعتوں نے بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کو اپنی حمایت کے خطوط سونپ دئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اب 7 جون کو این ڈی اے ممبران پارلیمنٹ کی میٹنگ ہوگی۔ اس کے بعد تمام اتحادی صدر دروپدی مرمو سے ملاقات کر کے حکومت سازی کا دعویٰ پیش کریں گے۔ اس کے لئےصدر مملکت کی جانب سے 7 جون شام 5 سے 7 بجے تک کا وقت دیا گیا ہے۔صدر مملکت سے ملنے سے پہلے 7 جون کو صبح 11 بجے بی جے پی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ ہوگی اور پھر دوپہر 2.30 بجے این ڈی اے پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ ہوگی، جس میں نریندر مودی کو پہلے لیڈر منتخب کیا جائے گا۔  اس کے بعد، شام 5 بجے کے بعد، این ڈی اے کے فلور لیڈر اور این ڈی اے کی اتحادی جماعتوں کے صدور اور دوسرے سینئر لیڈر راشٹرپتی بھون جائیں گے صدر جمہوریہ کے سامنے حکومت بنانے کا دعوپیش کریں گے۔بتایا جاتا ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا تو نریندر مودی ایک دن بعد یعنی 8 جون کو پی ایم اور دیگر منتخب اراکین پارلیمنٹ وزیر کے کے عہدے کا حلف اٹھا سکتے ہیں۔
اس بیچ یہ جانکاری مل رہی ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل سے ہی قبل این ڈی اے کی حلیف سیاسی جماعتوں نے وزارت کے لیے اپنے دعوے تیز کر دیے ہیں۔ اطلاع مل رہی ہے کہ نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو نے 4 وزارتی عہدے مانگے ہیں۔ چراغ پاسوان نے دو وزارتوں کا مطالبہ کیا ہے۔ٹی ڈی پی نے چار وزارتوں کا مطالبہ کیا ہے۔اپنی پارٹی کے واحد ایم پی جیتن رام مانجھی کو بھی ایک عدد وزارتی کرسی درکار ہے۔بتایا جاتا ہے کہ این ڈی کی میٹنگ میں جنتا دل یونائیٹڈ کے صدر ا ور تیلگو دیشم پارٹی کے صدراین چندر بابو نائیڈو کی کرسیاں ایک ساتھ لگائی گئیں تھیں۔قابل ذکر ہے کہ 18 ویںلوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو 240 سیٹیں ملی ہیں۔ ٹی ڈی پی نے 16، جے ڈی یو نے 12، شندے کی قیادت والی شیو سینا نے7 اور چراغ پاسوان کی پارٹی نے پانچ لوک سبھا سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ ایسے میں نئی حکومت کی تشکیل میں ان تمام جماعتوں کا کردار بہت اہم ہوگا۔ حالیہ وک سبھا الیکشن میں بی جے پی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اکثریت کا جادوئی ہندسہ 272 سے کافی دور رہ گئی ہے۔چنانچہ جے ڈی یو کے نتیش کمار اور ٹی ڈی پی کے این چندرابابو نائیڈو اب  پوری طرح سے کنگ میکر کے کردارمیں ہیں۔
18 لوک سبھا میں بی جے پی کی سیاسی حیثیت اتنی مضبوط نہیں رہ گئی ہے جتنی 16 ویں یا 17 لوک سبھا میں تھی۔ بی جے کے لئے حالیہ الیکشن اتنا مشکل ہو جائے گا، اسے اندازہ نہیں تھا۔’’مشن۔370‘‘ اور ’’اس بار 400 پار‘‘ کا نعرہ لگانے کا مطلب تھا کہ پارٹی ضرورت سے زیادہ پر اعتماد ہے۔چنانچہ پورا الیکشن نریندر مودی کے سیاسی قدکے اور ’’مودی کی ضمانت‘‘ کے ارد گرد گھومتا رہا۔2014   اور 2019 میں مودی کا جو جادو ملک کے رائے دہندگان کے سر چڑھ کر جس طرح بولا تھا، اس جادو میں اس بار (2024) وہ طاقت نہیں نظر آ سکی۔انتخابی جلسوں میں مرحلہ وار ان زبان میں جس طرح کی ترشی آتی گئی شاید وہ بھی عوام کو پسند نہیں آئی ۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ 2024 کے الیکشن میں مودی آگے ہو گئے تھے اور بی جے پی بہت پیچھے چھوٹ گئی تھی۔ان کا یہ انداز ان کی پارٹی کے بہت سارے لیڈروں کو ہی پسند نہیں تھا۔لہٰذا، مخالفت کی سطح ایسی ہو چکی تھی کہ ان کے سیاسی زوال اور ناکامی کی خواہش بہت سے لوگوں کا مقصد حیات ہو چکی تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہریانہ اور راجستھان میں جاٹ اور اتر پردیش میں راجپوتوں نے کھل کر نریندر مودی کا ساتھ نہیں دیا۔
  اگر غور سے دیکھا جائے تو 2024 کے انتخابات میں ان کا مخالف اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا ‘‘ بھی کوئی مضبوط اتحاد نہیں تھا۔ ان کا بھی بنیادی مقصد مودی کے رتھ کو روکنا ہی تھا۔ ساتھ ہی اس نے بے روزگاری، مہنگائی، نفرت کے بازار میں محبت کی دکان، غریبوں کے حقوق کے تحفظ اور آئین  نیز جمہوری اقدار کی حفاظت کو ایشو بنانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ دوسری طرف نریندر مودی مذہبی منافرت کو ہوا دے کر ہندو ووٹ کو پولرائزڈ کرنے میں لگے رہے۔ان ہی یہی کمزوری اپوزیشن کی طاقت بن گئی۔غور سے دیکھیں گے تو نظر آئے گا کہ  ’’انڈیا‘‘ کی حلیف علاقائی پارٹیوں نے قومی پارٹی کانگریس کو ہر طرح سے دباؤ میں رکھ کر اپنے مفاد کو زیادہ جگہ دی۔اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی، بہار میں راشٹریہ جنتا دل ، مہاراشٹر این سی پی اورشیوسینا ، دہلی اور پنجاب میں عام آدمی پارٹی، مغربی بنگال میں ٹی ایم سی گویا سب نے کانگریس کو مضبوط ہونے کا کوئی موقع نہیں دیا۔ علاقائی بالادستی کو برقرار رکھنا سب کی پہلی ترجیح تھی ۔اس کے باوجود کانگریس نے صرف نریندر مودی کی کمزوری کو اپنی طاقت بنا کر بی جے پی کو حکومت سازی سے دور اور حلیف جماعتوں کی بیساکھی کے سہارے اسے حکومت بنانے کے لئے مجبور کر دیا ہے۔اس طرح اب ملک میں ساجھی حکومت کا دور آ چکا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس دور کے آنے سے بہت سارے لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے۔