فلسطینی اتھارٹی کا بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع

تاثیر۴       جون ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

ہیگ،04جون:فلسطینی اتھارٹی نے بھی بین الاقوامی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کیے گئے مقدمے میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے۔ یہ پیش رفت تقریبا چھ ماہ بعد سامنے آئی ہے۔ جنوبی افریقہ نے یی عدالت انصاف میں درخواست پچھلے سال ماہ دسمبر میں دائر کی تھی، جس میں اسرائیل کو نسل کشی کا مرتکب قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ جنوبی افریقہ کی درخواست پر سماعتوں کا آغاز ماہ جنوری سے شروع ہو گیا تھا۔اب پیر کے روز فلسطینیوں نے باقاعدہ طور پر ریاست فلسطین کی طرف سے بین الاقومی عدالت انصاف کے سامنے درخواست پیش کی ہیکہ اسے بھی اسرائیل کے خلاف جاری نسل کشی کے مقدمے میں فریق بنایا جائے۔ یہ مقدمہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے کے لیے دائر ہے۔فلسطینیوں کی طرف سے دائر کی گئی تازہ درخواست جوکہ فلسطینی وزارت خارجہ ایک ذمہ دار افسر عمار حجازی کے دستخطوں سے تیار کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ‘ اسرائیل کی جاری جنگ میں منظم طور پر فلسطینی معاشرے ، فلسطینی ثقافت اور فلسطینی اداروں کو نقشے سے مٹایا جا رہا ہے۔جنوبی افریقہ نے ماہ دسمبر میں دائر کیے گئے اس مقدمے میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسرائیل 1948 کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اسرائیلی جنگ نے غزہ کے بڑے حسے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔
تاہم اسرائیل کو دعویٰ ہے کہ حماس کو تباہ کرنے کا مقصد نسل کشی نہیں ہے۔ وہ اسے اپنا حق قرار دیتا ہے۔ خیال رہے اب تک غزہ میں 36479 فلسطینیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔ ان کی ہلاکتوں کا تقریباً دو تہائی حصہ فلسطینی بچوں اور فلسطینی عورتوں پر مشتمل ہے۔بین الاقوامی عدالت انصاف نے اس مقدمے میں اب تک تین مختلف مگر ابتدائی حکم جاری کیے ہیں۔اولاً یہ کہ غزہ کی پٹی پر انسانی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کرے ثانیاً انسانی بنیادوں پر غزہ میں امدادی کی ترسیل میں رکاوٹیں دور کرے۔ ثالثاً رفح میں بھی جنگ کو روک دے۔تاہم ابھی فلسطینی اتھارٹی کی در خواست کو شامل سماعت کرنے کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف کتنا وقت لے گی اور مقدمے کا مجموعی فیصلہ کتنے عرصے میں کرتی ہے۔اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر جاری اپنی آٹھ ماہ کی جنگ میں اب تک پوری آبادی سمیت غزہ کے ہسپتالوں، تعلیم گاہوں، مسجدوں ، گرجا گھروں۔ گھروں مارکیٹوں۔ بیکریوں ،شہری سہولیات کے ڈھانچے سمیت ہر اس چیز بشمول اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کے دفاتر اور ایمبولینسز گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ مزید یہ کہ قبروں سے بھی لاشیں نکال کر لے گیا اور فلسطینیوں کی غزہ میں اجتماعی قبریں بھی بناتا رہا رہا ہے۔اسی طرح تباہ شدہ غزہ کی مکمل فوجی ناکہ بندی بھی جاری ہے، تاکہ جنگ زدہ فلسطینی باہم نہ مل سکیں، غزہ میں پانی اور کھانیکی اشیا کی ترسیل روکی رکھی جاسکے۔ اس کا نتیجہ ہے اقوام متحدہ کے اداروں کے بقول انسانی ساختہ قحط مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی، کہ خیال رہے اب تک 32 افراد خوراک نہ مل سکنے کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ کے بچے بھی بڑی تعداد دودھ اور بنیادی خوراک سے محروم ہیں۔تاہم ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف اس اہم مقدمے کا حتمی فیصلہ سنانے میں کتنا وقت لیتی ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیلی اتحادی اسرائیل کے ساتھ ساتھ اپنا بھی بچاؤ اسی میں سمجھ لیا ہے کہ کسی طرح یہ مقدمہ کسی فیصلے تک پہنچنے سے پہلے یہ جنگ اپنے نتیجے کو پہنچ چکی ہو۔