! ’مُسلم مکت‘ مرکزی حکومت

تاثیر۱۱      جون ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

پی ایم مودی حکومت کی تیسری اننگز کئی اعتبار سے موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔پی ایم مودی بی جے پی کے پہلے اور ملک کے دوسرے وزیر اعظم ہیں، جنہوں نے لگاتار اقتدار کی ہیٹ ٹرک حاصل کی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس بار اُن کی کابینہ میں کسی بھی مسلم چہرے کو جگہ نہیں دی گئی ہے۔ آزادی کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مرکزی حکومت کو مسلم نمائندگی سے محروم رکھا گیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی تین سے شروع ہو کر صفر پر آ کر ختم ہو گئی ہے۔
  2014 میں نریندر مودی کی قیادت میںپہلی بار بی جے پی کی حکومت بنی تھی۔ حکومت کی پہلی مدت میں نجمہ ہپت اللہ، ایم جے اکبر اور مختار عباس نقوی کی شکل میں تین مسلم وزراء کو کابینہ میں شامل کیا گیا تھا۔ نجمہ ہپت اللہ مرکز میں کابینہ کی وزیر بنیں، جب کہ ایم جے اکبر اور نقوی وزیر مملکت تھے۔  2019 میں مختار عباس نقوی کو دوبارہ کابینہ میں جگہ ملی، لیکن 2022 میں راجیہ سبھا کی مدت پوری ہونے کے بعد نقوی نے وزیر کا عہدہ چھوڑ دیا۔ اس کے بعد سے کسی بھی مسلمان کو مرکزی حکومت میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس طرح مودی دور میں شروع ہوا تین مسلم وزراء کا رجحان تیسری اننگز تک آتے آتے ختم ہو گیا۔
  قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کے ابتدائی دور یعنی جن سنگھ میں بھی مسلم قیادت موجود ہوتی تھی۔ سابق پی ایم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں بی جے پی کے سینئر مسلم لیڈروں میں سکندر بخت، عارف بیگ، مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین موجود تھے۔ سکندر بخت اور عارف بیگ بی جے پی کے بانی ارکان میں شامل تھے۔ شاہنواز حسین اور مختار عباس نقوی جیسے لیڈر بی جے پی کے ٹکٹ پر لوک سبھا انتخابات جیت چکے ہیں۔ شاہنواز تین بار لوک سبھا الیکشن جیت چکے ہیں۔ شاہنواز حسین اور مختار عباس نقو ی کا شمار کبھی بی جے پی کے قد آور لیڈروں میں ہوا کرتا تھا، لیکن نریندر مودی کی حکومت میں مرحلہ وار مسلم نمائندگی زوال آمادہ ہوتی گئی اورتیسری اننگز تک آتے آتے مسلمانوں کے لئے بی جے پی حکومت کا دروازہ بند ہوچکاہے۔
بی جے پی میں سکندر بخت، عارف بیگ، مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کا جلوہ کبھی دیکھنے لائق ہوا کرتا تھا۔عارف بیگ کو چھوڑ کر تینوں لیڈر اٹل بہار واجپائی کی قیادت والی حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں۔ 2014 کے بعد سے ان کا قد رفتہ رفتہ گھٹنے لگا۔نریندر مودی حکومت کی پہلی اننگز میں نجمہ ہپت اللہ کو کابینہ وزیر اور مختار عباس نقوی کو وزیر مملکت بنایا گیا۔ اس کے بعد کابینہ کی توسیع میں ایم جے اکبر کو شامل کیا گیا۔ اس طرح مودی حکومت کے پہلے دورمیں تین مسلمان وزیر تھے، لیکن اسی دور حکومت میں’’ می ٹو مہم‘‘ کا نشانہ بننے والے ایم جے اکبر کو کابینہ سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ جب کہ نجمہ ہپت اللہ کو جب گورنر بنایا گیا اس کے بعد سے مختار عباس نقوی واحد مسلم وزیر رہ گئے۔
2019 میں جب نریندر مودی کی قیادت میں دوسری بار حکومت بنی تو مختار عباس نقوی کو ایک مسلم چہرے کے طور پر مرکزی کابینہ میں بطور وزیر اقلیتی بہبود جگہ ملی۔اس وقت وہ راجیہ سبھا کے ممبر تھے۔ جولائی 2022 میں ان کی راجیہ سبھا کی رکنیت کی مدت ختم ہو گئی۔  پارٹی نے انہیں راجیہ سبھا نہیں بھیجا۔ اس وجہ سے انہیں وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی مودی کابینہ میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہوگئی۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں وہ پہلا موقع تھاجب مرکزی حکومت ، بی جے پی کے کچھ لیڈروں کی زبان میں ’’مسلم مکت ‘‘ ہو گئی تھی۔
  مودی حکومت تیسری اننگز میں توقع کی جارہی تھی کہ کسی مسلمان کو ضرور وزیر بنایا جائے گالیکن، اس بار کی کابینہ میں بھی کسی مسلمان کو جگہ نہیں دی گئی ہے۔ آج کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی تقریباََ 20 کروڑ کی آبادی کے باوجود مرکزی کابینہ میں ان کا حصہ صفر ہے۔حالانکہ مودی حکومت کی اس تیسری اننگز میں اقلیتی برادریوں سے 5 وزیر بنائے گئے ہیں، جن میں کرن رجیجو اور ہردیپ پوری کو کابینہ وزیر اور رونیت سنگھ بٹو، جارج کورین اور رام داس اٹھاولے وزیر مملکت ہیں۔ رجیجو اور کورین کا تعلق عیسائی برادری سے ہے۔ ہردیپ پوری اور بٹو سکھ ہیں۔ رام داس اٹھاولے بودھ مذہب سےآتے ہیں۔ اس طرح کابینہ میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔
بی جے پی نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں مختلف سیٹوں پر سات مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا، لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس کے بعد 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے چھ مسلمانوں کو امیدوار کے طور پر کھڑا کیا تھا، لیکن وہ بھی جیتنے میں ناکام رہے۔ اس بار 2024 کے انتخابات میں بی جے پی نے کیرالہ کی ملاپورم سیٹ سے عبدالسلام کو ٹکٹ دیا تھا، لیکن وہ بھی ہار گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم کمیونٹی بی جے پی سے دوری بنا رہی ہے، وہیں بی جے پی بھی مسلمانوں سے دوری اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔ بی جے پی کے کچھ سخت ہندتو حامی لیڈر اعلانیہ طور پر یہ بات کہتے نظر آتے ہیں کہ جب مسلمان بی جے پی کوووٹ نہیں دیتے ہیں تو ہم انھیں ٹکٹ کیوں دیں ؟
  اِدھر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی اور مودی حکومت میں مسلم چہرے کا ہونا محض ایک رسمی بات ہے لیکن، 14 فیصد آبادی کی نمائندگی کا نہ ہونا یقیناً تشویشناک ہے۔ سیاست کے ماہرین بھی مان رہے ہیں کہ اب ملک میں مسلم سیاست کی معنویت بہت تیزی کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔چنانچہ نہ صرف این ڈی اے بلکہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی مسلمانوں کو ٹکٹ دینے اور سیاست میں آگے لانے سے گریز کررہی ہیں۔ الیکشن لڑنے کے مواقع محدود ہونے کی وجہ سے لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔نتیجے کے طور پر موجودہ لوک سبھا میںصرف 26 مسلمان پہنچ سکے ہیں۔ جبکہ گزشتہ انتخابات میں یہ تعداد 27 تھی۔ بر سر اقتداراین ڈی اے سے وابستہ کسی جماعت سے اس بار ایک بھی مسلمان جیت کر پارلیمنٹ نہیں پہنچ پایا ہے۔ جے ڈی یو، ٹی ڈی پی اور ایل جے پی سے کوئی مسلمان لوک سبھا یا راجیہ سبھا رکن بھی نہیں ہے۔ غلام علی کھٹانہ یقینی طور پر ایک نامزد راجیہ سبھا ایم پی ہیں، جو جموں و کشمیر سے آتے ہیں اور بی جے پی کے ایک مضبوط لیڈر ہیں۔ اگر بی جے پی چاہتی تو انہیں مرکز میں مسلم چہرے کے طور پر شامل کرسکتی تھی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ چنانچہ آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہےکی مرکزی حکومت پوری طرح سے ’’مسلم مکت‘‘ ہو گئی ہے۔