ووٹ بینک کو منانے کی کوشش

تاثیر۱۰       جون ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

بحیثیت وزیر اعظم نریندر مودی کی تیسری حلف برداری ہو چکی ہے۔ ان کے ساتھ ہی اس بار 72 وزراء نے بھی حلف لیا ہے۔ 2014 اور 2019 کے مقابلے اس بار وزراء کی تعدا زیادہ ہے۔اس کا صاف مطلب ہے کہ اس بار اتحادی حکومت میں شامل پارٹیوں کو جگہ دینے کے لیے مودی کی کابینہ کے حجم کو بڑھانے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
پی ایم مودی کی اس نئی کابینہ میں ذات پات کے تانے بانے کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ایسا کرنا ایک طرح سے سیاسی مجبوری بھی تھی۔ دراصل لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو اس بار کئی ریاستوں میں کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ چاہے وہ اتر پردیش ہو، مہاراشٹر ہو یا راجستھان ہو، بہت سے ووٹ بینک ایسے تھے ،جو اس بار پارٹی سے الگ ہو گئے۔ اس وجہ سے پارٹی اکثریت کے ہندسہ 272  سے کافی پیچھے رہ گئی۔ وہیں اس بار بی جے پی کو دلت ووٹروں کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ لہٰذا، ان ووٹروں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے اور اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے اس بار کی کابینہ میں تمام ذاتوں کو مناسب جگہ دینے کی بھر پور کوششیں کی گئیں ہیں۔ اعلیٰ ذات، او بی سی، دلت اور قبائلی وغیرہ جیسی مختلف برادریوں کے چہرے اس بار کی کابینہ میں صاف صاف نظر آرہے ہیں۔
موجودہ کابینہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اگرچہ یوپی میں بی جے پی کو زبردست نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کے باوجود پی ایم نریندر مودی نے یوپی کے حصے کے ساتھ ساتھ اس کے طبقاتی ، ذاتی اور علاقائی توازن کا خاص خیال رکھا ہے۔ سیٹوں میں کمی کے باوجود یوپی کوٹہ سے 10 وزیر بنائے گئے ہیں ساتھ ہی ہر طبقے اور سماج کو نمائندگی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ذات پات کے تانے بانے مد نظر او بی سی اور دلتوں کے حصہ میں کوئی کمی نہیں آنے دی گئی ہے۔ تاہم مودی۔ 02  کی کابینہ میں شامل کئی وزراء کی شکست کی وجہ سے اس بار یوپی سے صرف دو کابینہ وزیر بنائے گئے ہیں۔
پی ایم نریندرمودی کی موجودہ کابینہ میں کل 30 کابینہ وزیر ہیں، پانچ وزرائے مملکت آزاد چارج کے ساتھ اور 36 وزرائے مملکت رکھے گئے ہیں۔ دھیان رکھا گیا ہے ان تمام وزراء کے ذریعے 24 ریاستوں کے ساتھ ساتھ تمام علاقوں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر اعداد و شمار کی بات کریں تو پی ایم مودی کی نئی کابینہ میں 21 اعلیٰ ذات، 27 او بی سی، 10 ایس سی، 5 ایس ٹی اور 5 اقلیتی وزیروں کو مقرر کیا گیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ اقلیتی طبقہ کے پانچ وزیروں میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے۔
  اس بار چونکہ بی جے پی کو اپنے طور پر اکثریت نہیں ملی ہے، اس لیے این ڈی اے کے 11 اتحادیوں کو بھی کابینہ میں جگہ دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ 23 ریاستوں کے چھ سابق وزرائے اعلیٰ اور وزراء کو بھی کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ اگر اونچی ذات کے وزراء کی بات کی جائے تو امیت شاہ، ایس جے شنکر، منسکھ منڈاویہ، راج ناتھ سنگھ، جتن پرساد، جینت چودھری، دھرمیندر پردھان، رونیت بٹو، نتن گڈکری، پیوش گوئل، منوہر لال کھٹر، جتیندر سنگھ، سنجے سیٹھ، گجندر سنگھ شیخاوت، رام موہن نائیڈو، جے پی نڈا، گری راج سنگھ، سوکانت مجمدار، للن سنگھ اورستیش چندر دوبے یعنی اعلیٰ ذات کے کل 21  اراکین پارلیمنٹ کو کابینہ میں جگہ دی گئی ہے۔ اسی طرح اگر او بی سی وزرا کے حوالے سے بات کی جائے تو پنکج چودھری، انوپریہ پٹیل، رکشا کھڈسے، شیوراج سنگھ چوہان، جیوترادتیہ سندھیا، رویندرجیت سنگھ، کرشنا پال گرجر، بھوپیندر یادو، اناپورنا دیوی، ایچ ڈی، کمار سوامی اور نتیاندرا رائے کو جگہ دی گئی ہے۔
اس بار مودی نے بھی پورا فوکس رکھا ہے۔ چنانچہ ایس پی بگھیل، کملیش پاسوان، اجے ٹمٹما، رامداس اٹھاولے، وریندر کمار، ساوتری ٹھاکر، ارجن رام میگھوال، چراغ پاسوان اور رام ناتھ ٹھاکر کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ آدیواسی وزیر کے طور پر ججویل اورام، شری پدا یسو نائک اور سروانند سونووال کو بھی کابینہ میں جگہ دی گئی ہے۔ اگر برادریوں اور ذیلی برادریوں کو ذہن میں رکھ کر کابینہ کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس بار نریندر مودی نے 3 ٹھاکر، 6 برہمن، 3 دلت، 1 قبائلی، 2 سکھ، 2 بھومیہار، 2 یادو، 2 پاٹیدار، ایک اوکلنگا اورایک کھتری برادری کے وزیر کو اپنی کابینہ میں شامل کیا ہے۔
  موجودہ کابینہ کی جو تصویر ہے اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ 2014 میں کل 46 وزراء نے حلف اٹھایا تھا۔ 2019 میں یہ تعداد بڑھ کر 52 ہو گئی تھی۔ اس بار  2024 میں مزید 20 وزراء کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے، جس سےان کی تعداد 72 ہو گئی ہے۔ یعنی گزشتہ اتوار کو کل 72 وزراء نے حلف اٹھایا تھا، جس کا سیدھا مطلب ہے کہ ناراض ووٹ بینک کو منانے اور سبھی ساتھیوں کو ایڈجسٹ کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے۔
 ******************