تاثیر۲۶ جون ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
18ویں لوک سبھا کے اسپیکر کے عہدے کی ذمہ داری اوم بڑلا سنبھالیں گے۔ انہیں مسلسل دوسری بار اسپیکر کے عہدے کی ذمہ داری ملی ہے۔ پی ایم نریندر مودی نے بدھ کو اوم بڑلا کو لوک سبھا کا اسپیکر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ پی ایم مودی نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ان کی صدارت میں 18ویں لوک سبھا ملک کے شہریوں کے خوابوں کو کامیابی سے پورا کرے گی۔ اسپیکر منتخب ہونے کے بعد پی ایم مودی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نو منتخب اسپیکر اوم بڑلا کی خوب تعریف کی۔
18ویں لوک سبھا کے پہلے اجلاس کے تیسرے دن اسپیکر کے نام کو حتمی شکل دی گئی۔ اوم برلا نے دوبارہ لوک سبھا اسپیکر کی ذمہ داری سنبھالی۔ راجستھان کے کوٹا سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اوم برلا کے لوک سبھا کے اسپیکر منتخب ہونے کے بعد پی ایم مودی، اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی اور پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو انہیں اسپیکر کی نشست پر لے گئے۔ ایوان کے تمام ارکان نے بھی انہیں مبارکباد دی۔ اس دوران پی ایم مودی نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کو یقین ہے کہ آنے والے پانچ سالوں میں آپ ہماری رہنمائی کریں گے۔ آپ ملک کی امنگوں اور توقعات پر پورا اترنے میں بڑا کردار ادا کریں گے۔آپ کی رہنمائی میں 17ویں لوک سبھا میں ایوان کے ذریعے جو اصلاحات ہوئی ہیں اور جو اہم قوانین پاس ہوئے ہیں وہ ایوان کی میراث ہیں۔ اگر مستقبل میں 17ویں لوک سبھا کا تجزیہ کیا جائے تو لکھا جائے گا کہ برلا کی سربراہی والی لوک سبھا نےبھارت کے مستقبل کے تعین میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ اس بار بھی آپ کامیاب ہونے والے ہیں، لیکن آپ کی سربراہی میں 18ویں لوک سبھا حد درجہ کامیابی کے ساتھ ملک کے شہریوں کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرے گی۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ این ڈی اے حکومت پہلے چاہتی تھی کہ اپوزیشن اتحاد’’ انڈیا‘‘ لوک سبھا اسپیکر کے لئے اوم بڑلا کی حمایت کرے ،لیکن اس پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا اور اپوزیشن نے اپنا امیدوار میدان میں اتار دیا۔حالانکہ اراکین پارلیامنٹ کی عددی طاقت کی بنا پر یہ پہلے سے ہی طے تھا کہ اوم بڑلا ہی اسپیکر ہوں گے۔ اور وہی ہوا بھی۔بدھ کو اوم برلا اسپیکر کے عہدے کے لیے منتخب ہو گئے۔پی ایم نریندر مودی کے ساتھ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی اور ایوان میں موجود لیڈروں نے بھی انھیں مبارکباد دی۔اوم بڑلا راجستھان کے کوٹا سے تین بار ایم پی منتخب ہوئے ہیں۔
اگر اعداد و شمار کے حوالے سے بات کی جائے تو تیلگو دیشم پارٹی اور جنتا دل یونائیٹڈ جیسے اتحادیوں کے ساتھ این ڈی اے کے پاس 543 میں سے 293 ووٹ ہیں۔ جبکہ انڈیا بلاک کے 236 ممبران ہیں اور اسے کچھ چھوٹی تنظیموں اور آزادوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس وقت لوک سبھا کی 16 سیٹیں آزاد اور چھوٹی علاقائی پارٹیوں کے پاس ہیں۔ بھارتی جمہوریت کی تاریخ میں ایسا صرف تین بار ہوا ہے، جب اسپیکر کے عہدے کے لیے ووٹنگ ہوئی ہے، ورنہ اس عہدے پر پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان ہمیشہ اتفاق رائے ہوتا ہے۔ اس سے قبل اسپیکر کے عہدے کے لیے ووٹنگ 1952، 1967 اور 1976 میں ہوئی تھی۔اسپیکر کے انتخاب کے حوالے سے منگل کو پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا تھا،’’مودی جی کہتے ہیں کہ ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے، ہم مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ان کے قول و فعل میں فرق ہے۔ جب کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے اپوزیشن کو ڈپٹی اسپیکر دینے کے لیے کہا تو وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ جی نے انھیں دوبارہ بلانے کی بات کہی تھی، لیکن اسکے بعدان کا کوئی کال نہیں آیا۔
قابل ذکر ہے کہ 17ویں لوک سبھا آزاد بھارت کی تاریخ میں پہلی لوک سبھا تھی، جب ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ خالی رہا۔ آئین کا آرٹیکل 93 کہتا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ضروری ہے۔ آئین کے مطابق ایوان کے دو ارکان کو اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کرنا لازمی ہے۔ یہاں تک کہ جب کانگریس 1969 تک اقتدار میں تھی، کانگریس ان دونوں عہدوں کو اپنے پاس رکھتی تھی، لیکن 1969 میں یہ رجحان بدل گیا۔ کانگریس نے یہ عہدہ آل پارٹی ہل لیڈرز کے لیڈر گلبرٹ جی سویل کو دیا، جو اس وقت شیلانگ سے ایم پی تھے۔ آئین کے آرٹیکل 95 کے مطابق ڈپٹی سپیکر اپنی غیر موجودگی میںا سپیکر کی ذمہ داریاں نبھاتا ہے۔ اگر ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ خالی رہتا ہے، تو صدر اس کام کے لیے لوک سبھا سے رکن پارلیمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔ آرٹیکل 94 کے مطابق اگر سپیکر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہے تو اسے اپنا استعفیٰ ڈپٹی سپیکر کو بھیجنا ہوتا ہے۔
واضح ہو کہ ایوان میں اکثریت ثابت کرنے یا دل بدل انسداد قانون کے نفاذ کی صورت میں اسپیکر کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ ایوان میں اختلاف کی صورت میںا سپیکر کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ لوک سبھا کے سربراہ کے طور پر، اسپیکر ایوان کا سربراہ اور چیف ترجمان ہوتا ہے۔ سپیکر کو ایوان میں نظم و ضبط برقرار رکھنا ہوتا ہے اور وہ ایوان کی کارروائی کو ملتوی یا معطل کر سکتا ہے۔ اسپیکر کو پارلیمنٹ سے متعلق آئین ہند کی دفعات، لوک سبھا کے طریقہ کار اور قواعد و ضوابط کا حتمی ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی جو بھی تشریح ایوان کے تناظر میں ہو، وہ درست ہو گی۔اس کے علاوہ اسپیکر کو آئین کے دسویں شیڈول کی دفعات کے تحت کسی رکن کی نااہلی اور انحراف کی بنیاد پر کسی بھی رکن اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا اختیار ہے۔ تاہم، 1992 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اسپیکر کا فیصلہ عدالتی نظرثانی سے مشروط ہے۔ 18ویں لوک سبھا کے آغاز کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس سیشن میں زیادہ بحث ہوگی، اختلاف رائے ہوگا اور تمام جماعتوں کو اتفاق رائے پر لانے کی کوششیں دیکھنے کو ملیں گی۔اس کی وجہ صرف یہ ہوگی کہ بی جے پی اپنے بل بوتے پر حکومت نہیں بنا پائی ہے۔ویسے توقع ہے کہ اس بار بر سر اقتدار این ڈی اے حکومت اس بار جمہوری تقاضوں کا خیال رکھے گی۔اسپیکر اوم برلا بھی پوری غیر جانبداری کے ساتھ اپنی منصبی ذمہ داریوں اوربھارت کے تقاضوں کو پورا کریں گے۔