!سپریم کورٹ سے ہی ا نصاف ملے گا

تاثیر۲۰      جون ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کی حکومت کو ریزرویشن کی حد بڑھانے کے معاملے پر پٹنہ ہائی کورٹ سے جھٹکا لگا ہے۔ بہار میں درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، انتہائی پسماندہ طبقات اور دیگر پسماندہ طبقات کے لیے ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں میں ریزرویشن کو 65 فیصد تک بڑھانےسے متعلق قانون کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کی طرف سے منظور کردہ ریزرویشن قانون کو آئین کی تین دفعات کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یہ فیصلہ پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ونود چندرن اور جسٹس ہریش کمار کی بنچ نے سنایا ہے۔واضح ہو کہ یہ قانون اس وقت منظور ہوا تھا جب نتیش کمار بہار میں آر جے ڈی کے ساتھ مخلوط حکومت چلا رہے تھے۔
نتیش کمار نے آر جے ڈی کانگریس کے ساتھ حکومت چلاتے ہوئے ذات کی بنیاد پر سروے کرایا تھا اور سروے کی بنیاد پر ہی  نومبر 2023 میں ریزرویشن کی حد 50 فیصد سے بڑھا کر 65 فیصد کر دی گئی تھی۔ درحقیقت اندرا ساہنی کیس میں سپریم کورٹ کی نو ججوں کی آئینی بنچ نے 1992 میں فیصلہ دیا تھا کہ کسی بھی حالت میں ریزرویشن کی حد 50 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم مرکزی حکومت نے اقتصادی طور پر کمزور طبقے کے لیے اس حد کو 50 سے بڑھا کر 60 فیصد کر دیا ہے۔ 2022 میں، سپریم کورٹ کی 5 ججوں کی بنچ نے 3-2 کے فیصلے میں معاشی طور پر کمزور طبقہ ( ای ڈبلیوایس) کے لئے 10 فیصد ریزرویشن کو برقرار رکھا تھا اور اس قانون کے خلاف دائر تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔
واضح ہو کہ بہار میں ریزرویشن کے نئے قانون کے بعد مرکزی ریزرویشن 65 فیصد ہو گیا تھا، جب کہ معاشی بنیادوں پر ریزرویشن کو جوڑ کر کل ریزرویشن کا تناسب 75 فیصد ہو گیا تھا۔ بہار حکومت کے ذریعہ منظور شدہ ریزرویشن قانون کو کئی تنظیموں نے پٹنہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، جس کی سماعت کے بعد عدالت نے 11 مارچ کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا، جو 20 جون کو سنایا گیا۔ عدالت نے اسے آئین کی دفعہ 14، 15 اور 16 کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ بھارت کے آئین کی دفعہ  14  یہ سب کو مساوی حقوق دیتی ہے۔ کسی بھی قسم کا ریزرویشن مساوات کے حق کی خلاف ورزی ہے لیکن آرٹیکل 15 اور 16 نے ریزرویشن جیسے اقدامات کی راہ ہموار کی ہے۔جبکہ دفعہ 15  بنیادی حقوق کے بارے میں بات کرتے ہوئے مذہب، نسل، ذات، جنس یا جائے پیدائش کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی مخالفت کرتا ہے اور مساوات کی بات کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان مختلف دفعات کے ذریعے حکومت کو سماجی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ لوگوں کی ترقی کے لیے خصوصی انتظامات کرنے کی طاقت ملتی ہے۔اسی طرح آئین کی دفع 16 یہ کہتا ہے کہ سرکاری ملازمت میں تقرری میں تمام شہریوں کے لیے یکساں مواقع ہونے چاہئیں۔ چنانچہ کوئی بھی شہری مذہب، ذات، جنس، جائے پیدائش یا رہائش کی بنیاد پر سرکاری ملازمت یا تقرری کے لیے نااہل نہیں ہو گا اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز برتا جائے گا۔ اس دفعہ میں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور غیر ریزرویشن کے لیے مختلف طبقات کے ذریعے سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کا انتظام کیا گیا ہے۔
جس وقت نتیش حکومت نے ذات کے سروے اور ریزرویشن کی حد بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا،  اس وقت وہ آج کے انڈیا بلاک میں شامل تھے۔ ریزرویشن سے متعلق ان کے فیصلے کو سیاست میں ایک ماسٹر اسٹروک سمجھا جاتا تھا۔  ریزرویشن کے تناسب میں اضافہ سے متعلق نتیش کمار کا فیصلہ پورے ملک میں موضوع بحث بنا ہوا تھا۔ اسی بنیاد پر نتیش کمار نے ذات  کے تانے بانے درست کرنے کی کوشش کی تھی۔ دوسری طرف نئے ریزرویشن قانون کے خلاف پٹنہ ہائی کورٹ میں کئی عرضیاں دائر کی گئی تھیں۔
  کانگریس بھی آبادی کے حساب سے ریزرویشن کے حق میں ہے ۔کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ذات کے سروے کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کے نتیش کمار کے فیصلے کو پسند کیا۔ اس کے بعد وہ لگاتار کہہ رہے تھے کہ ’’جس کی جنتی آبادی، اس کی اتنی حصہ داری‘‘ساتھ ہی جگہ جگہ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اگر مرکز میں انڈیا بلاک کی حکومت بنتی ہے، تو قومی سطح پر ذات کی مردم شماری کرائی جائے گی اور آبادی کے حساب سے ریزرویشن کی حد میں ترمیم کی جائے گی۔درحقیقت صرف بہار ہی نہیں مہاراشٹر، گجرات، راجستھان، تمل ناڈو، جھارکھنڈ اور کرناٹک جیسی ریاستیں ریزرویشن کا دائرہ بڑھا کر سیاسی اور سماجی تانے بانے کو مضبوط کرنا چاہتی ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نتیش کمار نے ذات کا سروے کروا کر اور اس کے مطابق ریزرویشن کی حد بڑھا کر اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔ اگرحالیہ لوک سبھا انتخابات میں جے ڈی یو کی سیٹیں بی جے پی کے برابر ہیں تو نتیش کے دوسرے کاموں کے علاوہ اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ ذات کا سروے اور ریزرویشن میں اضافہ ہے۔ تاہم، نتیش حکومت اس بات کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہے گی کہ اس کے فوائد ملتے رہیں۔ ریزرویشن قانون کے خلاف گورو کمار اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کے بعد پٹنہ ہائی کورٹ نے 11 مارچ 2024 کے لیے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔انھیں عرضیوں کی سماعت کے بعد گزشتہ جمعرات (20 جون 2024) کونئے ریزرویشن قانون کو آئینی بندوبست کے تحت منسوخ کر دیاہے۔ ممکن ہے کہ ریاستی حکومت اب ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔ ایسے ہی ایک معاملے میں سپریم کورٹ پہلے ہی حکم دے چکی ہے۔ریزرویشن کے دائرہ کو بڑھائے جانے کی حمایت  اور مخالفت کرنے والوں کو یقین ہے کہ انھیں سپریم کورٹ سے ہی انصاف ملے گا۔