تاثیر۱۲ جون ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے بی جے پی اور اس کی حکومت کے بارے میں پچھلے دنوں کچھ ناصحانہ باتیں کہہ کر ملک کے عوام کو چونکا دیا تھا۔ موہن بھاگوت ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ سنگھ اور بی جے پی کے درمیان سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے نا ؟ کچھ اس طرح کی چہ میگوئیاں اچانک ہر طرف ہونے لگی تھیں، جن کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔
بلا شبہہ جب بھی بی جے پی کی پالیسیوں کی بات چلتی ہے توآر ایس ایس کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بی جے پی کی تقریباً ہر پالیسی اور ہر بڑے فیصلے میں سنگھ کا کردار ہوتا ہے۔ سنگھ رہنما اصول مرتب کرتا ہے اور بی جے پی اس پر عمل در آمد کو یقینی بناتی ہے۔ لیکن، 10 جون کو، آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایک تقریر کی تھی۔ تقریر ناگپور میں سنگھ کے ’’کا ریہ کارتا وکاس ورگ سماروہ‘‘ کے اختتام پر کی گئی تھی۔ اس میں موہن بھاگوت نے بی جے پی اور اس کی حکومت کا نام لیے بغیر کچھ ایسی باتیں کہہ ڈالیں ، جنھیں سن کر لوگ چونک گئے تھے۔ آخر موہن بھاگوت ایسی باتیں کیوں کہہ رہے ہیں ؟ کیا سنگھ اور بی جے پی کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہے نا ؟ کچھ اس طرح کے سوالات میڈیا کے ساتھ ساتھ عوام کی زبان پر بھی گشت کرنے لگے تھے۔
موہن بھاگوت نے انتخابات کے حوالے سے کہا تھا ’’ ایسے موقعوں پر ایک دوسروں پر سبقت لے جانے کی کوششیں ضرور ہوتی ہیں۔خوب مقابلہ آرائی ہوتی ہے۔لیکن، اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اس بار الیکشن ایسے لڑے گئے جیسے یہ الیکشن نہیں جنگ ہو۔ اس بار جس طرح کی چیزیں ہوئیں ہیں، جس طرح سے دونوں فریقوں نے اپنی کمر کس کر ایک دوسرے پر حملہ کیا ہے، اس سے تقسیم پیدا ہوگی، سماجی اور ذہنی دراڑیں بڑھیں گی۔پارلیمنٹ میں دو فریق ضروری ہیں۔ لیکن، ہر حال میں دونوں فریق کو وقار کو برقرار رکھنا پڑتا ہے۔ ‘‘ حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے سنگھ سربراہ نے کہا کہ اپوزیشن کو مخالف جماعت کہنے کےبجائے’’ پرتی پکش‘‘ کہنا چاہئے۔ بھاگوت نے اس دوران یہ بھی کہا ’’ جو وقار کا پاس لحاظ رکھتے ہوئے کام کرتا ہے، وہ فخر کرتا ہے ، تکبر نہیں ۔اور صحیح معنوں میں خادم کہلانے کا حقدار وہی ہے۔‘‘
موہن بھاگوت منی پور پر بھی بولے۔کہا کہ منی پور ایک سال سے امن کا انتظار کر رہا ہے۔ ریاست میں گزشتہ 10 برسوں سے امن و امان تھا، لیکن اچانک وہاں بد امنی پیدا ہوگئی یا بدامنی پیدا کروائی گئی۔ منی پور آج بھی اپنی آگ میں جل رہا ہے۔ ا لامان ، الامان کر رہا ہے۔ا س پر کون توجہ دے گا؟ ضروری ہے کہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ ظاہر ہے یہ پیغام بھی مرکزی حکومت کے لئے ہی تھا۔
موہن بھاگوت کے اتنے سخت الفاظ سننے کے بعد بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ سنگھ اور بی جے پی کے درمیان کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ انتخابات کے دوران بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کے ایک بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’انڈین ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جے پی نڈا نے کہا تھا کہ پہلے بی جے پی کو آر ایس ایس کی ضرورت تھی، لیکن آج بی جے پی اپنے آپ کو چلانے کے لئے اہل ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور اور موجودہ وقت کے درمیان کے حالات میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ اس پر نڈا نے کہا تھا ’’شروع میں ہم قدرے نااہل ہوں گے۔تب آر ایس ایس کی ضرورت تھی۔ آج ہم بڑے اور اہل ہو گئے ہیں۔چنانچہ بی جے پی اپنے آپ کو چلا رہی ہے۔یہی فرق ہے۔‘‘
کیا واقعی آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان کچھ ناراضگی ہے؟ سیاسی ماہرین اس سوال کا جواب ابھی تک اپنے اپنے ڈھنگ سے دے رہے ہیں۔بعض کا کہنا ہے کہ سنگھ اور بی جے پی ہائی کمان کے درمیان تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران اس بار سنگھ کی ا تنی نہیں چلی، جتنی پچھلے انتخابات میں چلا کرتی تھی۔ جے پی نڈا کے بیان سے بھی سنگھ کے کارکنوں کو تکلیف پہنچی ہے۔ اس کے علاوہ اس بار سنگھ کے کارکنوں نے بھی لوک سبھا کی انتخابی مہم میں خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا ۔ ’’ اب کی بار 400 پار‘‘ اور ’’ مودی کی گارنٹی‘‘ والے ماحول میں آر ایس ایس کیڈر پارٹی سے جڑ نہیں پایا۔ حالانکہ پارٹی سے وابستہ تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے تعلقات میں کوئی کشیدگی نہیں ہے۔ سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت صرف حکومت کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں خبردار کر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ ایسا کرنا ضروری ہے۔موہن بھاگوت نے منی پور کے چیلنج پر حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ بر سر اقتدار اور اپوزیشن سارے گلے شکوے بھول کر ملک کے مفاد میں مل کر کام کریں۔اور جے پی نڈا کے بیان کا مطلب صرف اتنا تھا کہ بی جے پی اپنا کام کرتی ہے اور سنگھ اپنا کام کرتا ہے۔
اِدھر آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان کی تلخیوں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران پارٹی کے سینئر لیڈروں کے ذریعہ کی گئی کھلے عام بد زبانی، پارٹی کے صدر کے انتخاب سے لیکر لوک سبھا انتخابات کے امیدواروں کے سلیکشن میں کی گئی مبینہ من مانی کے ساتھ ساتھ منی پور کے حالات سے حکومت کی مسلسل بے اعتناعی پر سخت نشانہ ہی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی تقریر کا بنیادی مقصد تھا۔موہن بھاگوت کوجوکچھ کہنا تھا ، بڑے سلیقے سے کہہ گئے۔صرف اتنا ہی نہیں موہن بھاگوت نے اپنے خطاب جن باتوں کی جانب حکومت میں بیٹھے متکبر اور مغرور لوگوں کی توجہ جس شائستگی کے ساتھ مبذول کرائی اور سماج کے ایک سچے اور اچھے خادم کے سلسلے میںاپنے مؤقف کا جس ڈھنگ سےاظہار کیا، اسے عوام نے خوب پسند کیا۔خاص طور پر یہ بات کہ’’ انتخابی عمل جمہوریت کا حصہ ہے، جس میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دو فریق ہوتے ہیں۔دونوں ایک دوسرے دشمن نہیں ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے، جنگ نہیں ہوتی ہے۔‘‘ بہر حال یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے حالیہ انتخابات میں تعاون کے لئے آر ایس ایس سے رابطہ قائم نہیں کیا۔ بی جے پی کے لیڈروں اور ان کے کارکنوں میں حد سے زیادہ خود اعتمادی تھی۔ وہ سوشل میڈیا پر اپوزیشن کو لعن طعن کرتے رہے۔ ان کے غرور نے انھیں زمین پر اترنے کا موقع ہی نہیں دیا۔موہن بھاگوت کا پیغام در اصل اسی سیاسی غرور کے نام تھا۔