برطانیہ میں لیبر پارٹی کی شاندار واپسی

تاثیر۳      جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

برطانیہ میں 4 جولائی کو ہوئے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہو گیا ہے۔ اس بار کے انتخابات میں لیبر پارٹی کو زبردست کامیابی ملی ہے۔ لیبر پارٹی رہنماسر کیر سٹارمر برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ لیبر پارٹی کی اس شاندار واپسی کے ساتھ ہی ملک میں کنزرویٹو پارٹی کی 14 سال طویل حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ہاؤس آف کامنز کی 650 نشستوں میں سے کیر سٹارمر کی قیادت میں لیبر پارٹی نے 400 سے زیادہ نشستیں جیت لی ہیں، جبکہ موجودہ وزیر اعظم اور کنزرویٹو رہنما رشی سنک کی پارٹی 120 کے قریب سیٹوں  سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت کے لیے 326 نشستیں درکار ہیں۔ سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم رشی سنک نے کل جمعہ کی صبح شکست کو قبول کیا اور کیر اسٹارمر کو ان کی جیت پر مبارکباد دی۔ انہوں نے شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ آنے والے مہینوں میں پارٹی سربراہ کے عہدے سے بھی مستعفی ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ برطانیہ کے سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم رشی سنک نے شمالی انگلینڈ میں اپنی نشست جیت لی ہے۔  اپنی نشست جیتنے کے بعد انہوں نے کہا، ’’میں کیئر اسٹارمر کو ان کی جیت پر مبارکباد دیتا ہوں۔‘‘  انہوں نے کہا کہ آج اقتدار کی پرامن منتقلی ہوگی۔  44 سالہ رشی سنک سال 2022 میں برطانیہ کے وزیر اعظم بنے۔ وہ برطانیہ کے سب سے کم عمر وزیر اعظم ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ برطانیہ کے وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھنے والے پہلے ہندوستانی اور سیاہ فام شخص ہیں۔ اس کے والدین ہندوستانی نژاد ہیں۔
نتائج کے اعلان کے بعد رشی سونک نے اپنے حامیوں سے معافی مانگی اور کہا کہ اس نتیجے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا ’’آج رات ان مشکل وقتوں میں، میں رچمنڈ اور نارتھلرٹن حلقے کے لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے ہماری حمایت کی ہے۔ آپ لوگوں نے مجھے سپورٹ کیا ہے۔ جب سے میں دس سال پہلے یہاں منتقل ہوا تھا۔ اور آپ نے میرے خاندان کو بے پناہ پیار دیا۔ میں ایک ایم پی کے طور پر آپ کی خدمت کرنے کے لیے پرجوش ہوں۔ آج اقتدار کی پرامن منتقلی ہوگی۔ تمام جماعتوں میں ہم آہنگی تھی۔  ان تمام چیزوں کی وجہ سے، ہم سب کو اپنے ملک کے استحکام اور مستقبل کے بارے میں پراعتماد ہونا چاہیے۔‘‘
برطانوی پارلیمانی انتخابات میںکنزرویٹو پارٹی کی شکست فاش کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ کھیلوں کے حوالے سے اگر کوئی ٹیم میچ سے پہلے ہی شکست تسلیم کر لیتی ہے تو اس کے حامیوں کے حوصلے بالکل ٹوٹ جائیں گے۔ اس بات کا اطلاق برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کے لاکھوں حامیوں پر ہوتا ہے، جسے 4 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ووٹنگ کی تاریخ سے بہت پہلے کنزرویٹو پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے جیت کی امید چھوڑ دی تھی۔ وہ ووٹروں سے اپیل کر رہے تھے کہ وہ بھاری اکثریت سے اقتدار کی کمان لیبر پارٹی کے حوالے نہ کریں۔کنزرویٹو پارٹی کے ان رہنماؤں نے کہا کہ اگر انہیں کافی نشستیں ملیں تو وہ ایک موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیں گے۔ ایسے میںسب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کو گزشتہ کئی دہائیوں میں اپنی سب سے شرمناک شکست کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟  ماہرین اس کے پیچھے کئی وجوہات بتاتے ہیں۔  مڈل سیکس یونیورسٹی میں جنوبی ایشیائی امور کی ماہر ڈاکٹر نیلم رائنا کا کہنا ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کی اتنی بڑی شکست کے پیچھے ایک کے بعد ایک آنے والے سکینڈلز تھے، جن کی وجہ سے جمہوریت کو ٹھیس پہنچی ہماری سیاست پر لوگوں کا بھروسہ ٹوٹا۔
  ماہرین بتاتے ہیں کہ کنزرویٹو پارٹی کی حکومت کے کوویڈ 19 وبائی مرض سے نمٹنے کے طریقے پر بھی سوالات اٹھے تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم بورس جانسن اور ان کی حکومت کے وزراء نے لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔ جب تنازعہ بڑھ گیا تو بورس اینڈ جانسن کی جگہ الزبتھ ٹرس کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ لیکن، ان کی معاشی پالیسیاں اتنی خراب تھیں کہ الزبتھ ٹرس صرف 40 دن تک وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ سکیں۔ اس کے بعد ہندوستانی نژاد برطانوی وزیراعظم رشی سنک نے اقتدار سنبھالا۔ سنک کی حکومت معاشی بدحالی، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے چیلنجوں کے ساتھ جدوجہد کرتی رہی۔ حال ہی میں سٹے بازی کا ایک گھوٹالہ بھی سامنے آیا تھا، جس میں رشی سنک کے قریبی لوگ اور ان کی حکومت کے ارکان بھی ملوث تھے۔
برطانوی انتخابات میں جیتنے والی لیبر پارٹی کی 124 سال کی تاریخ ہے۔ لیبر پارٹی کی سرکاری ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق اس کا قیام 1900 میں عمل میں آیا تھا۔ یہ محنت کش لوگوں کی آواز اٹھانے کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ پارٹی محنت کش طبقے کے لوگوں، ٹریڈ یونینوں اور سوشلسٹوں کی کئی سالوں کی جدوجہد کے نتیجے میں بنی تھی۔ پارٹی کا بانی  کیر دوادرن ہے۔ اس پارٹی کا مقصد برطانوی پارلیمنٹ میں محنت کش طبقے کی آواز کی نمائندگی کرنا تھا۔ یہی مقصد تھا، جس نے کیر دوادرن اور ان کے ساتھیوں کو متحد کیا۔ پارٹی کا آغاز فروری 1900 میں لندن کے میموریل ہال میں ہوا۔
  ہندوستانی نژاد ویریندر شرما لیبر پارٹی کے سابق ایم پی ہیں۔اس بار انہوں نے الیکشن نہیں لڑا ۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں اپنی سیٹ ایک نوجوان لیڈر کے لیے چھوڑنا چاہتا تھا۔‘‘ وریندر شرما کی کنزرویٹو پارٹی کے کئی لیڈروں سے اچھی دوستی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’ کنزرویٹو پارٹی کی قیادت میں اندرونی کشمکش تھی۔اگر آپ بار بار جرنیلوں کو بدلتے رہیں گے تو جنگ کیسے جیتیں گے؟  صرف پچھلے چند سالوں میں ہی چار وزرائے اعظم نے کرسی سنبھالی ہے۔ پارٹی کے اندر کوئی اتحاد نہیں تھا۔ ان کے 14 سالوں کے دوران معیشت تباہ ہو چکی تھی۔‘‘ کنزرویٹو پارٹی کے تمام رہنما کھل کر کرس سٹارمر کی تعریف کر رہے ہیں کہ انہوں نے لیبر پارٹی کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔حالانکہ 2019  میں کس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ لیبر پارٹی اگلے انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتے گی۔اِدھر کیئر سٹارمر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ برطانیہ کےتعلقات کو بہتر کریں گے۔ لیبر پارٹی کے سابق ایم پی وریندر شرما کا خیال ہے کہ، ہندوستان-برطانیہ تعلقات سٹارمر کے دور حکومت میں پروان چڑھیں گے۔‘‘پچھلی پارلیمنٹ میں لیبر پارٹی کے چھ ممبران پارلیمنٹ ہندوستانی نژاد تھے۔ اس بار یہ تعداد دو گنی ہو گئی ہے۔ چنانچہ یہ تعداد اس بات کو یقینی بنائے گی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں۔بھارت کو بھی یہی امید ہے کہ برطانیہ کی نئی حکومت کا رویہ بھارت کے تئیں مثبت ہوگا۔