تاثیر۳۰ جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
بہار ملک کی ان چند ریاستوں میں شامل ہے، جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی نے تنظیمی تبدیلیاں کی ہیں۔ایسا 2025 کے اسمبلی انتخابات کے مد نظر کیا گیا ہے۔پارٹی کی ان تنظیمی تبدیلیوں کے طوفان میں سمراٹ چودھری کے سر سے ان کی پگڑی کے ساتھ ساتھ بہار پردیش بی جے پی کے صدر کا عہدہ بھی ان سے کھسک گیا ہے۔ ان کی جگہ پر بی جے پی نے اصلاحات اراضی اور محصولات کے وزیر دلیپ جیسوال کو صدر بنا دیا ہے۔سمراٹ کو بہار بی جے پی کے صدر کے عہدے سے ہٹایا جائے گا، اس کی قیاس آرائیاں حالیہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے اعلان کے وقت سے ہی شروع ہوگئی تھیں۔اس بار بی جے پی بہار میں 17 میں سے صرف 12 سیٹوں پر کامیاب ہو پائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سمراٹ چودھری کو جس مقصد کے لئے بی جے پی نے بہار کی تنظیم کی کمان سونپی تھی ، وہ اس مقصد کی کسوٹی پر کھرے نہیں اتر سکے۔ نتیجہ سامنے ہے، ایک سال کے اندر ہی انھیں ریاستی صدر کی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیا گیا۔سمراٹ چودھری کو ان کے عہدے سے چھٹی کی پہلی اور سب سے بڑی وجہ لوک سبھا انتخابات میں توقعات کے مطابق بی جے پی کا بہتر مظاہرہ نہیں ہونا سمجھا جاتا ہے ۔ بی جے پی، جس نے 2014 اور 2019 میں بالترتیب 22 اور 17 سیٹیں جیتی تھیں، مگر 2024 میں 12 سیٹوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ سابق مرکزی وزیر اشونی چوبے نے سمراٹ چودھری کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا تھا کہ امپورٹڈ لیڈر بی جے پی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ بی جے پی کو اپنے بنیادی کارکنوں اور لیڈروں پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ اشونی چوبے کے خیالات کو کچھ لوگوں نے ان کی ذاتی رائے قرار دے کر ہوا میں اڑا دیا تھا۔ اب مرکزی سطح پر بی جے پی میں دیگر پارٹیوں سے آئے لیڈروں کو لے کر دماغی کسرت شروع ہو گئی ہے۔ مرکزی قیادت بھی یہ سمجھنے لگی ہے کہ اپنے ہی کیڈر کے لوگوں پر اعتماد کرنا درست ہے۔ اس بار کے لوک سبھا انتخابات میں دوسری پارٹیوں کے 100 سے زیادہ امیدواروں کو ٹکٹ دے کر بی جے پی نے یہ دیکھ لیا ہے کہ وہ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو پا تے ہیں۔
بی جے پی نے سمراٹ چودھری پر تب بھروسہ کیا تھا جب نتیش کمار بہار میں لو کش (کرمی کوئری) ووٹوں کے واحد دعویدار تھے اور وہ عظیم اتحاد ’’ انڈیا ‘‘بلاک کے ساتھ چلے گئے تھے۔ بی جے پی کو امید تھی کہ او بی سی کی خاصی آبادی والےکشواہا ووٹوں کو اپنی طرف لانے کے معاملے میں سمراٹ چودھری مفید ثابت ہوں گے۔ کیونکہ وہ کوئری سماج سے آتے ہیں۔ لیکن ان سے بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس کشواہا ووٹروں نے بی جے پی یا این ڈی اے کے بجائے’’ انڈیا بلاک‘‘ کے امیدواروں پر اعتماد کا اظہار کیا۔
شاہ آباد علاقے میں این ڈی اے نے پانچ پارلیمانی سیٹیوں کو کھو دیا۔ بی جے پی کے لیے سب سے زیادہ تکلیف اس بات سے ہوئی کہ کثیر آباد راجپوت سیٹ اورنگ آباد سے راجپوت امیدوار سشیل کمار سنگھ آر جے ڈی امیدوار ابھے کشواہاسے چناؤ ہار گئے۔ صرف اتنا ہی نہیں، این ڈی اے کی حلیف جماعت راشٹریہ لوک مورچہ کے صدر اوپیندر کشواہا، جو کوئری برادری سے تعلق رکھتے ہیں، کو بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس سے سمراٹ چودھری کی اپنی برادری پر کمزور گرفت کا راز بھی کھل گیا۔ بی جے پی شاید یہ بات بھی ہضم نہیں کر پائی کہ جے ڈی یو کی مدد سے مرکز میں نریندر مودی کی حکومت بننے کے فوراً بعد سمراٹ نے اعلان کر دیا کہ بہار کے اگلے اسمبلی انتخابات نتیش کمار کی قیادت میں لڑے جائیں گے۔ مانا جاتا ہے کہ یہ بی جے پی کے حامیوں کی حوصلہ شکنی کا اعلان تھا۔ اس کے بعد ہی اشونی چوبے نے کہا تھا کہ اسمبلی انتخابات بی جے پی کی قیادت میں ہی لڑے جائیں۔
بی جے پی نے لوک سبھا ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر مرکز میں وزارتی عہدوں تک ہر چیز میں ویشیوں سے توقع کی تھی۔ شاید بی جے پی کو بہت زیادہ اعتماد تھا کہ ویشیہ اس کے ووٹر ہیں اور رہیں گے، لیکن ویشیہ سماج میں اس کا وسیع ردعمل تھا۔ویشیہ سماج مسلسل بی جے پی پر اسے نظر انداز کرنے کا الزام لگا ر ہا تھا۔ اس دوران لالو پرساد یادو کی پارٹی آر جے ڈی نے کشواہا کے ساتھ ویشیہ سماج کو بھی اپنے دائرے میں لانے کی کوشش شروع کردی ۔ ریتو جیسوال کو لوک سبھا کا ٹکٹ دے کر آر جے ڈی نے کوسی سیمانچل کے ویشیوں کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی۔ اسمبلی انتخابات میں اس کی توسیع کے خطرےکو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے کشواہا ووٹوں کا لالچ ترک کر کے اب روایتی ووٹوں پر توجہ دینی شروع کر دی ہے۔سشیل مودی اور سنجے جیسوال کے بعد دلیپ جیسوال بہار ریاست بی جے پی کے تیسرے ویشیہ لیڈر ہیں، جنہیں پارٹی کا ریاستی صدر بنایا گیا ہے۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت کو بھروسہ ہے کہ 2025 کے اسمبلی انتخابات میں بہار کا وشیہ سماج ہی اسے اقتدار تک پہنچانے میں مؤثر کردار ادا کر سکے گا۔