تل ابیب : اسرائیلی مظاہرین کا جنگ بندی معاہدے کے لیے نیتن یاہو پر دباؤ

تاثیر۸  جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

تل ابیب،08جولائی:تل ابیب کی سڑکوں پر اتوار کو مسلسل دوسرے روز بھی اسرائیلی شہریوں کا مظاہرہ جاری رہا۔ مظاہرے میں شامل افراد یہ نعرے لگا رہے تھے کہ “ہم ہر گز ہار نہیں مانیں گے”۔ احتجاج کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے تا کہ وہ غزہ میں یرغمال قیدیوں کی رہائی کے معاہدے تک پہنچ جائے۔مظاہرین نے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ قیدیوں کی رہائی سمیت جنگ بندی کا معاہدہ طے کریں یا پھر اپنے عہدے سے سبک دوش ہو جائیں۔
تل ابیب میں مظاہرین میں شامل 57 سالہ خاتون سماجی کارکن اورلی ناتیو کا کہنا تھا کہ “آخری کیل ٹھونکی جا چکی ہے۔ حکومت اس بات پر توجہ نہیں دے رہی کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں، وہ غزہ سے ہمارے بھائیوں کی واپسی کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے۔مظاہرین اسرائیلی پرچم تھامے ہوئے تھے۔ انہوں نے تل ابیب میں مرکزی راستوں پر ٹریفک کی آمد و رفت روک دی۔ وہ حکومت سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔اتوار کو مظاہرے سے قبل اسرائیلی پولیس نے بیت المقدس میں نیتن یاہو کی قیام گاہ کے اطراف سیکورٹی اقدامات بڑھا دیے تھے۔ادھر اسرائیلی صدر آئزک ہرتزوگ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر کہا ہے کہ “غالب اکثریت قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدے کی تائید کرتی ہے۔ ان کی واپسی ریاست کی ذمے داری ہے”۔
اس سے قبل ہفتے کی شام تل ابیب میں حکومت مخالف مظاہرین نے ہائی وے کو بند کر دیا تھا۔ ان میں سے بعد مظاہرین کی گھوڑ سوار پولیس اہل کاروں کے ساتھ جھڑپ بھی ہوئی۔
ہفتے کی شام ڈیموکریسی اسکوائر پر ہونے والے مظاہرے کے منتظمین نے احتجاج میں شریک افراد کی تعداد کا اندازہ 1.76 لاکھ لگایا ہے۔ یہ گذشتہ برس سات اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد اسرائیل میں ہونے والا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔تل ابیب میں ہر ہفتے کی شب بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں انتخابات کرانے کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ پورے میں ملک میں چھوٹے احتجاجی مظاہرے بھی ہوتے ہیں جن کا مقصد قیدیوں کی واپسی کے لیے نیتن یاہو پر دباؤ ڈالنا ہے۔نیتن یاہو نے ایسے کسی بھی معاہدے کی مخالفت کی ہے جو حماس کا وجود باقی رہنے دے۔ہفتے کی شب احتجاج میں شریک مظاہرین کا کہنا تھا کہ “اس موقع کو ضائع نہیں کیا جا سکتا … یہ جنگ ناکام ہو چکی ہے … واحد چیز جو اس جنگ سے یقینی بنی وہ یہ کہ دنیا ہم سے نفرت کرنے لگی ہے۔