!عقیدتمندوں کی آستھا کہیں مجروح نہ ہو جائے

تاثیر۳      جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

اتر پردیش میں ہاتھرس ضلع کے سکندرراؤ علاقے کے پلرائی گاؤں میں2 جولائی، بروز منگل بڑے پیمانے پر منعقدایک ’’ست سنگ‘‘ میں بھگدڑ مچنے سے اب تک 122 افراد کی ہلاکت کی خبرہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ستسنگ کس کا تھا؟  یہ ستسنگ نارائن ساکار ہری نامی ایک ’’کتھا واچک‘‘ کا تھا، جس کے پوسٹر ہاتھرس کی سڑکوں اور چوک چوراہوں پر لگائے گئے تھے۔  لوگ اس ’’کتھا واچک‘‘  کو بھولے بابا اور وشو ہری کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ جولائی کے مہینے کے پہلے منگل کو منعقد ہونے والے اس پروگرام کا نام   ’’ مانو منگل ملن تھا‘‘ اور اس کے منتظم کا نام’’ مانو منگل ملن سدبھاونا سماگم سمیتی‘‘ ہے۔ اس کمیٹی کے چھ منتظمین کے نام بھی موجود ہیں، لیکن ان کے موبائل فون بند ہیں۔ اطلاع کے مطابق مقامی پولیس بھی ابھی تک ان لوگوں سے رابطہ نہیں کر سکی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ نارائن ساکر ہری ایٹہ ضلع سے الگ ہونے والے کاس گنج ضلع کے پٹیالی کے بہادر پور گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ اتر پردیش پولیس میں اپنی ملازمت کے ابتدائی دنوں میں، وہ مقامی انٹیلی جنس یونٹ (ایل یو آئی) میں تعینات تھے اور تقریباً 28 سال قبل چھیڑ خانی کے ایک کیس میں ملزم ہونے کی وجہ سے انہیں معطلی کی سزا ملی تھی۔ معطلی کی وجہ سے سورج پال جاٹو کو پولیس سروس سے برطرف کر دیا گیا۔ تاہم، اس سے پہلے سورج پال جاٹو تقریباً 18 تھانوں اور مقامی انٹیلی جنس یونٹوں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔  اٹاوہ کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سنجے کمار کا کہنا ہے کہ سورج پال چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں طویل عرصے تک ایٹہ جیل میں بند رہے اور جیل سے رہائی کے بعد ہی وہ سورج پال بابا کے روپ میں لوگوں کے سامنے آئے۔ پولیس سروس سے برطرف ہونے پر سورج پال نے عدالت سے رجوع کیا اور پھر اس کی نوکری بحال ہوگئی، لیکن 2002 میں سورج پال نے آگرہ ضلع سے وی آر ایس لیا۔ پولس سروس سے فارغ ہونے کے بعد سورج پال جاٹو اپنے گاؤں ناگلہ بہادر پور پہنچے، جہاں کچھ دن رہنے کے بعد اس نے ایشور سے سنواد ہو نے کا دعویٰ کیا اور خود کو بھولے بابا منوانے کے لیے کام کرنا شروع کردیا۔  چند ہی سالوں میں ان کے عقیدت مندوں نے انہیں کئی ناموں سے پکارنا شروع کر دیا اور بڑی بڑی تقریبات کا انعقاد شروع کر دیا جس میں ہزاروں لوگ شرکت کرنے لگے۔ 2جولائی بروز منگل سکندرراؤ علاقے کے پلرائی گاؤںمنعقد ست سنگ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔
2جولائی کی دیر شام ، اتر پردیش کے چیف سکریٹری منوج کمار نے اس حادثے میں کم از کم 116 لوگوں کی موت کی تصدیق کی تھی۔ انہوں نے کہا تھاکہ قصورواروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی اور واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔ اس حادثے میں زیادہ تر خواتین کی موت ہوئی ہے۔ اس ستسنگ کے انعقاد کی تیاریاں کئی دنوں سے جاری تھیں۔ خیمہ آٹھ دن میں مکمل ہوا تھا۔ اجازت طلب کرتے ہوئے منتظمین نے انتظامیہ کو بتایا تھا کہ ستسنگ میں تقریباً 80 ہزار لوگ شرکت کریں گے، لیکن یہاں پہنچنے والوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ عینی شاہدین اور عقیدت مندوں کے مطابق ستسنگ ختم ہونے کے بعد یہاں آنے والے عقیدت مندوں میں بابا کے قدموں کی دھو ل حاصل کرنے کے لئے ہوڑ مچی اور یہی ہوڑ بھگدڑ کی وجہ بن گئی۔
  تقریب پُلرائی گاؤں میں منعقد ہوئی تھی، جو علی گڑھ کو ایٹہ سے جوڑنے والی قومی شاہراہ 34 پر سکندراؤ شہر سے تقریباً چار کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہاں کئی بیگھہ اراضی پر خیمے لگائے گئے تھے، جنہیں جلد بازی میں اکھاڑ دیا گیا ہے۔ زیادہ تر ہلاکتیں جائے وقوعہ کے اس پار ہائی وے کے اطراف میں ہوئیں۔ بارش کی وجہ سے شاہراہ کی یہ ڈھلان پھسلن بھری ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق اس بھگدڑ میں عموماََ گرنے والے اٹھ نہ سکے۔ دن میں ہونے والی بارش کی وجہ سے مٹی گیلی اور پھسلن بھری تھی ،جس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو گئے۔ نارائن ساکر وشو ہری عرف ’’بھولے بابا‘‘ کے باہر نکلنے کے لیے الگ راستہ بنایا گیا تھا۔ بہت سی عورتیں بابا کے قریب، ان کا درشن کر نے کے لئے کھڑی تھیں۔ جیسے ہی ستسنگ ختم ہوا، شاہراہ پر بھیڑ بڑھ گئی۔ جب نارائن ساکار اپنی گاڑی کی طرف جارہے تھے، اسی وقت بھگدڑ مچ گئی۔   اس واقعہ کے بعد بابا یا ان کے ستسنگ سے جڑے لوگوں کی طرف سے کوئی آفیشیل بیان نہیں آیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ بھگدڑ 2 جولائی کے دن کے ڈھائی بجے کے قریب مچی تھی ۔ زخمیوں کو فوری طور پر سکندراؤ سی ایچ سی لے جایا گیا۔ یہاں پہنچنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ سی ایچ سی کے ٹراما سینٹر کے صحن میں لاشوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ ’’میں چار بجے اسپتال پہنچا تھا۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ لوگ علاج کے بغیر دم توڑ رہے تھے۔اگرچہ یہ سکندراؤ کا سی ایچ سی بڑا ہسپتال ہے، لیکن اس کی گنجائش اتنی نہیں ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کو سنبھال سکے۔افرا تفری اس قدر تھی کہ واقعے میں ہلاک ہونے والےمتعدد افراد کی رات 12 بجے تک بھی شناخت نہیں ہوسکی تھی۔ انتظامیہ نے شناخت ہونے والوں کی فہرست جاری کر دی ہے۔نارائن ساکار کے ستسنگ میں آنے والے زیادہ تر لوگ کمزور معاشی طبقے اور پسماندہ ذاتوں سے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ بابا کے ستسنگ میں میڈیا کا داخلہ نہیں ہے۔ویڈیو بنانے پر بھی پابندی ہے۔ بابا میڈیا میں بھی زیادہ تشہیر نہیں کرتے ہیں۔ بھکت بابا کے قدموں کی دھول کو ایک نعمت سمجھتے ہیں۔چنانچہ بابا جہاں سےگزرتے ہیں، ان کے عقیدتمند انکے پاؤں کے نیچے کی مٹی اٹھاتے رہتے ہیں۔اس بڑے حادثے کے بعد بھی بابا میں ان کے بھکتوں کی عقیدت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ان کے عقیدتمندوں کا دعویٰ ہے کہ نارائن ساکار کی تصویر لٹکتی مالا گلے میں پہننے سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ اس سے سکون ملتا ہے، بیماریاں ٹھیک ہوتی ہیں، گھر کی پریشانیاں دور ہوتی ہیں اور روزگار ملتا ہے۔ اس بھکتی بھاؤنا کی قدر شاید یوپی کی یوگی حکومت کو بھی کر نی پڑ رہی ہے۔ اور اس لئےکرنی پڑ رہی ہے کہ عقیدتمندوں کی  آستھا کہیں مجروح نہ ہو جائے