!قائم رہو حسینؓ کے انکار کی طرح

تاثیر۱۱  جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے ۔ محرم الحرام سے ہجری سال کا آغاز اور ذی الحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ اس ماہ کو حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ یوں تو سارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ ماہِ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی
ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ میں حضور اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک صاحب نے آکر پوچھا ،یا رسول اللہ ﷺ! رمضان کے مہینے کے بعد کس مہینے کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں، تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر رمضان کے مہینے کے بعد تمھیں روزہ رکھنا ہو تو محرم کا روزہ رکھو ،اس لئے کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم (بنی اسرائیل) کی توبہ قبول کی اور دوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ یوم عاشورہ (  محرم الحرام کی دسویں تاریخ) میں آسمان و زمین اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا ۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا ۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ بنا دیا گیا اور ان پر آگ گلزار ہو گئی۔اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور آل فرعون سے اس طرح نجات ملی کہ  اﷲ تعالیٰ نے فرعون سمیت اس کی فوجوں کو بحیرہ قلزم میں غرق کردیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون کے ظلم و استبداد سے نجات حاصل ہوئی ۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان نوح کے بعد جودی نامی پہاڑ کے قریب آکر ٹھہری ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو اس مہینے میں قید سے نجات حاصل ہوئی۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو طویل بیماری کے بعد شفا نصیب ہوئی۔حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا گیا۔ اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی اور اس کے علاوہ تاریخ اسلام کے بے شمار واقعات کثرت سے اس دن میں وقوع پذیر ہوئے ۔
  یوم عاشوراء محرم، محرم الحرام کی دسویں تاریخ کا نام ہے اور محرم الحرام کے پورے مہینے میں جو تقدیس آئی ہے، وہ اس تاریخ اور دن کی وجہ سے ہے اور اسے مقدس جانتے ہوئے گزشتہ آسمانی مذاہب سے تعلق رکھنے والی قومیں بطور شکرانہ اس کا روزہ رکھتی رہی ہیں۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے شریعتِ اسلامیہ میں بھی بطور فرض عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا رہا ہے۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد عاشورہ کے روزے کی فرضیت تو منسوخ ہوگئی، لیکن عاشورہ کے دن کی تقدیس برقرار ہے۔ چناں چہ یہ فرمادیا گیا کہ اب جس کا دل چاہے، اس دن کاروزہ رکھے اور جس کا دل چاہے، اسے ترک کردے۔ویسے ایک موقع سےحضوراکرمﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی کہ اگر میں اس دنیا میں رہا تو آئندہ سال دس محرم الحرام کے روزے کے ساتھ نو محرم الحرام کا روزہ بھی ضرور رکھوں گا۔چنانچہ اس ارشاد مبارک کی روشنی میں فقہائے کرام یہ مسئلہ بتاتے ہیں کہ صرف دس محرم الحرام کا روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ بھی ملالیا جائے یعنی محرم الحرام کی نو اور دس تاریخ کا روزہ رکھے یا دس اور گیارہ تاریخ کا روزہ رکھے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس روزے کے حوالے سے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص عاشورہ کا روزہ رکھے، مجھےا ﷲتعالیٰ کی ذات سے امید واثق ہے کہ اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘
فقہائے کرام نے گناہوں کی معافی کے حوالے سے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ ان سے مراد ﷲتعالیٰ کی چھوٹی چھوٹی نافرمانیاں ہیں، بڑے بڑے گناہ تو خود قرآن و حدیث کی تصریح کے مطابق بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ جہاں تک ﷲ کے بندوں کے حقوق غصب کرنے کا تعلق ہے ،وہ صاحب حق کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوتے، بعض روایات میں اس دن کے حوالے سے یہ بات ملتی ہے کہ ’’اگر کوئی شخص اپنے اہل خانہ پر عام دنوں کے مقابلے میں بہتر کھانے (اپنی استطاعت کے مطابق) کا انتظام کرے تو ﷲتعالیٰ پورا ایک سال اس کے رزق میں برکت عطا فرمائے گا۔‘‘
مندرجہ بالا دو باتیں اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں کہ ان کا ذکر اور عمل قرون اُولیٰ میں بھی ثابت ہے۔ اس مہینے کے حوالے سے تاریخ اسلام کے دو اہم ترین واقعے بھی ہیں۔ پہلا واقعہ ہے کہ یکم محرم الحرام کو امیرالمؤمنین، خلیفہ راشد سیدنا عمر بن خطاب ؓکی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ اوردوسرے اہم ترین واقعہ سے تو دنیا کا بچہ بچہ واقف ہے۔ دس محرم الحرام، 61 ہجری کومیدان کربلا میں اہل بیت پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے گئے۔ ان پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے اور بالآخر نواسہ رسولﷺ سیدنا حضرت حسین ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ ؓ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر دیا کیا گیا۔یہ ایک ایسا اندوہناک سانحہ ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی کسک ہر مومن کے دل میں ہر اُس موقع پر اُٹھتی رہے گی، جب جب یہ واقعہ اس کے ذہن میں تازہ ہوتا رہے گا۔اور اسے احمد فراز ؔ کی زبان میں ،اپنے آپ اور اپنے حلقۂ احباب سے یہ کہتے رہنے کی توفیق ملتی رہے گی :
جب بھی ضمیرو ظرف کا سودا ہو دوستو
قائم رہو حسینؓ کے انکار کی طرح