لوگ کیا کہیں گے، یہ سب کو معلوم ہے

تاثیر۷      جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

حال ہی میں اختتام پذیر لوک سبھا انتخابات 2024 میں ہائی وولٹیج مقابلہ کے بعد، 10 جولائی کوملک کی 7 ریاستوں کی 13 اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ اس انتخاب میں کانگریس کی قیادت اپوزیشن اتحاد ’’ا نڈیا‘‘ اور بی جے پی کی قیادت وا لے ’این ڈی اے ‘ کے درمیان سیدھا مقابلہ ہوگا۔ان سیٹوں کے لئے پولنگ 10 جولائی کو اور ووٹوں کی گنتی 13 جولائی کو ہوگی۔ جن اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں ان میں بہار کی روپولی، مغربی بنگال میں رائے گنج، راناگھاٹ جنوبی، بگداہ اور مانیک لتا، تمل ناڈو میں وکراونڈی، مدھیہ پردیش میں امرواڑہ، اتراکھنڈ میں بدری ناتھ اور منگلور، پنجاب میں جالندھر ویسٹ اور ڈہرہ، ہماچل پردیش میں ہمیرپور اور نالہ گڑھ شامل ہیں۔

سیاسی مبصرین کی مانیں تو مذکورہ تمام سیٹوں میں ، بہار کی ایک روپولی اسمبلی سیٹ ہے، جس پر ہونے والے ضمنی انتخاب پر سب کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں۔ آر جے ڈی نے یہاں سے بیما بھارتی کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ بیما بھارتی 2020 میں جے ڈی یو کے ٹکٹ پر یہاں سے ایم ایل اے منتخب ہوئی تھیں، لیکن وہ لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے آر جے ڈی میں شامل ہوگئیں اور اپنی ایم ایل اے شپ سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اس کے بعد آر جے ڈی نے انہیں ’’انڈیا‘‘ کی جانب سے پچھلے لوک سبھا انتخابات میں پورنیہ سے امیدوار بنایا تھا۔ مگر پپو یادو کے بغاوتی تیور کے آگے بیما بھارتی کی ایک نہیں چلی۔پپو یادو آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اتر گئے اور انھوں نے بیما بھارتی کو کراری شکست دی۔ وہاں سے جے ڈی یو امیدوار دوسرے اور بیما بھارتی تیسرے نمبر پر رہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں انہیں صرف 27 ہزار کے آس پاس ووٹ ملے تھے اور ان کی حفاظتی رقم بھی ضبط کر لی گئی تھی۔واضح ہو کہ روپولی اسمبلی حلقہ پورنیہ پارلیمانی حلقہ میں ہی آتا ہے۔

جس طرح پچھلے پارلیمانی انتخابات کے دنوں میں پورنیہ کی سیٹ پر سیاست گرمائی ہوئی تھی اسی طرح ضمنی انتخابات کے موقع پر بھی سیاست کا درجۂ حرارت آسمان پر ہے۔پورنیہ کی طرح اس بار رپولی سیٹ کے لئے ایک بار پھر جنتا دل یونائیٹڈ اور آر جے ڈی انتخابی میدان میں آمنے سامنے ہیں۔ جنتا دل یونائیٹڈ نے کلادھر منڈل کو اس سیٹ سے اپنا امیدوار بنایا ہے، جب کہ آر جے ڈی نے ایک بار پھر بیما بھارتی پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں میدان میں اتارا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روپولی ضمنی انتخاب میں یہ مانا جا رہا تھا کہ جنتا دل یونائیٹڈ اور آر جے ڈی کے درمیان لڑائی میں پپو یادو بھی اپنا امیدوار کھڑا کر سکتے ہیں، لیکن کچھ دن پہلے بیما بھارتی نے پپو یادو سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کر کے ان سے حمایت کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس کے بعد سے روپولی سیٹ پر سیاسی تانا بانا بدل گیا ہے۔حالانکہ جنتا دل یونائیٹڈ نے ایک بار پھر اس سیٹ کو جیتنے کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے اور جے ڈی یو کوٹے کے تمام وزراء روپولی میں لگاتار انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ روپولی اسمبلی حلقہ میں گنگوٹا برادری کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔بیما بھارتی اور جے ڈی یو امیدوار کالادھر منڈل دونوں اسی برادری سے آتے ہیں۔دونوں کا دعویٰ ہے کہ اس سیٹ پر انھیں کامیابی ملے گی۔حالانکہ پارٹی سطح کے ان دونوں امیدواروں کے درمیان اس انتخابی جنگ میں ایک آزاد امیدوار شنکر سنگھ بھی پوری مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ان کی وجہ سے دونوں اتحادوں کے امیدواروں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں ۔زمینی حقائق سے آگاہ لوگوں کا کہنا ہے کہ روپولی ضمنی انتخاب میں صورتحال بالکل پورنیہ لوک سبھا جیسی نظر آرہی ہے۔ مقابلہ پوری طرح سے سہ رخی دکھائی دے رہا ہے۔ اپنی اپنی پارٹی کی آبرو بچانے کے لئے نتیش کمار اور تیجسوی یادو سمیت دونوں اتحادوں کے کئی بڑے لیڈروں نے انتخابی مہم میں مورچہ سنبھال رکھا ہے۔ درحقیقت یہ دونوں پارٹی کے بڑے لیڈر جانتے ہیں کہ یہ صرف ایک ضمنی انتخاب نہیں ہے بلکہ یہ اسمبلی انتخابات 2025 کے لیے بھی ایک واضح اشاریہ بھی ثابت ہونے والا ہے۔اس ضمنی انتخاب کا رزلٹ بتائے گا کہ آنے والے انتخابات میں کس کا پلڑا بھاری رہے گا۔

بہار سے تعلق رکھنے والے سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ روپولی ضمنی انتخاب کا نتیجہ بہت اہم ثابت ہونے والا ہے، کیونکہ اس کے نتائج سے یہ تصویر واضح ہو جائے گی کہ بہار میں نتیش اورمودی کا جادو برقرار ہے یا’’ انڈیا‘‘ بلاک نے لوک میں بہار میں این ڈی اے کو جو چنوتی دی تھی، اس بار بھی ویسے ہی حالات ہیں۔ نتیش کمار کے سامنے روپولی ضمنی انتخاب جیت کر پورنیہ لوک سبھا انتخابات میں اپنی شکست کی تلافی کرنے کا بھی چیلنج ہے۔ساتھ ہی انھیں یہ پیغام بھی دینا ہے کہ انتہائی پسماندہ رائے دہندگان ان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ اِدھر تیجسوی یادو نے بھی ایم وائی ایکویشن سے ہٹ کر اس بار انتہائی پسماندہ کارڈ کھیلنے کی کوشش کی ہے۔اس کھیل میں اگر ان کا امیدوار جیت جاتا ہے تو یہ جیت پورے بہار کے انتہائی پسماندہ ووٹروں کو یہ پیغام دیگی کہ آر جے ڈی کی پکڑ او بی سے رائے دہنگان پر مضبوط ہے۔ اس انتخاب کے نتیجے سے پپو یادو کی سیاسی حیثیت کا بھی اندازہ ہو نے والا ہے۔انھوںنے کہا ہے کہ کانگریس نے ضمنی انتخاب میں آر جے ڈی امیدوار بیما بھارتی کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور وہ کانگریس پارٹی کے اس فیصلے کے ساتھ ہیں۔ اس کے باوجود اگر بیما بھارتی اپنی کھوئی ہوئی سیٹ نہیں بچا پاتی ہیں تو پپو یادو کی ساکھ پر بھی سوال اٹھے گا اور اگر جے ڈی یو اپنی سیٹ واپس نہیں لے پاتا ہے، تو لوگ کیا کہیں گےیہ سب کو معلوم ہے۔