مزید بد امنی پھیل سکتی ہے

تاثیر۲۰  جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

پڑوسی ملک بنگلہ دیش ان دنوں تشدد کی آگ میں جل رہا ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کے خلاف طلباء کا جاری احتجاج  مزید پرتشدد ہوتا جا رہا ہے۔ملک میں گزشتہ کئی دنوں سے ہلاکت خیز جھڑپیں جاری ہیں۔اس پرتشدد تحریک کی وجہ سے 105سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔  پورے ملک میں کرفیو نافذ ہے۔  دارالحکومت ڈھاکہ میں موبائل انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی ہے۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں تالے لٹک رہے ہیں۔ طلباء اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ہیں۔   تاہم پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس درمیان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔ مظاہرین اس بات پر بضد ہیں کہ جب تک مسئلہ حل نہیں ہوتا ان کا احتجاج جاری رہے گا۔ بنگلہ دیش میں جاری اس تشدد کے باعث بھارت اور امریکہ سمیت کئی ممالک نے اپنے شہریوں کے لیے ایڈوائزری جاری کی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے نے بھی تشدد پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
  اس کی کہانی 1971 سے شروع ہوتی ہے۔ یہ وہ سال تھا جب بنگلہ دیش نے جنگ آزادی کے بعد پاکستان سے آزادی حاصل کی تھی۔ ایک سال بعد، 1972 میں، بنگلہ دیش کی حکومت نے مجاہدین آزادی کی اولاد کے لئے سرکاری ملازمتوں میں 30 فیصد ریزرویشن دیا تھا۔ بنگلہ دیش میں اس وقت اسی ریزرویشن کےخلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہ مظاہرے گزشتہ ماہ کے آخر میں شروع ہوئے تھے ۔ شروع شروع میں مظاہرے پرتشدد نہیں تھے۔ تاہم معاملہ اس وقت بڑھ گیا جب ان مظاہروں میں ہزاروں لوگ یکا یک سڑکوں پر نکل آئے۔ گزشتہ سوموار کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج کر رہے طلبہ کی پولیس اور حکمران عوامی لیگ کی حمایت یافتہ طلبہ تنظیم کے ساتھ جھڑپ بھی ہوئی تھی۔ اس واقعے میں کم از کم 100 افراد زخمی ہوئے تھے۔بنگلہ دیش میں اگلے روز بھی تشدد جاری رہا اور کم از کم چھ افراد مارے گئے۔ بدھ اور جمعرات کو مزید جھڑپیں ہوئیں تو نیم فوجی دستوں کو بڑے شہروں کی سڑکوں پر گشت کے لیے تعینات کیا گیا۔
  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریزرویشن 1972 میں دیا گیا تھا تو تحریک اب کیوں ہو رہی ہے؟ بنگلہ دیش میں 1972 سے جاری اس ریزرویشن سسٹم کو حکومت نے 2018 میں ختم کر دیا تھا۔ مگرگزشتہ ماہ ہائی کورٹ نے اسے پھر سے نافذ کرتے ہوئے  ریزرویشن سسٹم کو ختم کرنے کے فیصلے کو بھی غیر قانونی قرار دیا تھا۔ عدالتی حکم کے بعد ملک بھر میں زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔حالانکہ بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیاہے۔ حکومت کی اپیل کے بعد سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم کو معطل کرتے ہوئے کیس کی سماعت کے لئے 7 اگست کی تاریخ مقرر کی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ معاملہ اس وقت مزید بڑھ گیا جب وزیر اعظم شیخ حسینہ نے عدالتی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے مظاہرین کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا۔ حکومت کے اس قدم کے باعث طلبہ نے اپنے احتجاج میں شدت پیدا کردی۔
 بنگلہ دیش میںنافذ موجودہ ریزرویشن سسٹم کے تحت بنگلہ دیش میں 56 فیصد سرکاری ملازمتیں محفوظ ہیں، جن میں 30 فیصد 1971  کے مجاہدین آزادی کے وارثین کے لئے، 10 فیصد پسماندہ انتظامی اضلاع کے لئے، 10 فیصد خواتین کے لئے، 5 فیصد نسلی اقلیتی طبقوں کے لئے اور 1 فیصد معذور افراد کے لئے مختص ہیں، لیکن طلباء صرف مجاہدین آزادی کے وارثین کو دیے گئے ریزرویشن کے خلاف ہیں۔  اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر سال 3 ہزار سرکاری نوکریاں پیدا ہوتی ہیں،جن کے لیے درخواستیں دینے والوں کی تعداد 4 لاکھ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ اس کو لے کر طلباء میں کافی غصہ ہے۔ وہ ملازمت کے 30 فیصد عہدوں کو بھی میرٹ کی بنیاد پربھر نے کے لئے احتجاج رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ریزرویشن سے صرف وزیر اعظم شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ کے حامیوں کے فائدے کے لئے ہے۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں۔ انھوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی قیادت کی تھی۔ احتجاجی مظاہرے کے کوآرڈینیٹر حسنت عبداللہ کا کہنا ہے کہ طلباء  کلاسوں میں واپس آنا چاہتے ہیں، لیکن وہ ایسا تبھی کریں گے جب ان کا مطالبہ پورا ہوگا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اقلیتوں اور معذوروں کے لیے ریزرویشن کے خلاف نہیں ہیں۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ مجاہدین آزادی کے وارثین کے لئے ملازمتوں میں ریزرویشن کے حق میں ہیں۔ چنانچہ اس کے دفاع میں ان کا کہنا ہے کہ مجاہدین آزادی کو اعلیٰ ترین اعزاز ملنا چاہیے، چاہے ان کی سیاسی وابستگی کچھ بھی ہو۔ ان کی حکومت نے حزب اختلاف کی اہم جماعتوں، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی پر لاقانونیت کو بڑھاوا دینے کا الزام لگایا ہے۔ بی این پی نے احتجاج کی حمایت میں جمعرات کو طلبا کی ہڑتال کی کال کی حمایت کی تھی۔ اس سے قبل بدھ کو حکام نے بی این پی کے ہیڈکوارٹر پر بھی چھاپہ مارا تھا اور پارٹی کے طلبہ ونگ کے کئی کارکنوں کو گرفتار کیا تھا۔ جمعرات کو بنگلہ دیش کے وزیر قانون انیس الحق نے کہا تھا کہ وزیراعظم شیخ حسینہ نے انہیں مظاہرین کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو کہا ہے۔ اگر مظاہرین تیار ہیں تو وہ بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ بنگلہ دیش کی 17 کروڑ کی آبادی میں سے تقریباً 3.2 کروڑ نوجوان بے روزگار یا تعلیم سے محروم ہیں۔ کبھی دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل بنگلہ دیش کی معیشت آج جمود کا شکار ہے۔ ملک میں افراط زر 10 فیصد کے قریب ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ روزگار کے مواقع بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ طلبہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی اہلیت کے مطابق نوکریاں حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، سرکاری ملازمتوں کی بھرتی کے امتحانات اور انتخابی عمل میں موجود بدعنوانی نے بھی لوگوں میں کافی مایوسی اور غصہ پیدا کیا ہے۔یہی مایوسی اور غصہ پر تشدد احتجاج اور مظاہرے کی صورت میں آج بنگلہ دیش کی سڑکوں پرنظر آ رہا ہے۔نظارہ بالکل’’ تن آمد بہ جنگ آمد‘‘ جیسا ہے۔اگر حالات کو جلد قابو میں نہیں کیا گیا تو ملک میں مزید بد امنی پھیل سکتی ہے۔