تاثیر۳۰ جون ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
تین نئے فوجداری قوانین ’’انڈین جسٹس کوڈ، انڈین سول ڈیفنس کوڈ اور انڈین ایویڈینس کوڈ‘‘ یکم جولائی، 2024 ، بروزسوموار ، رات 12 بجے سے پورے ملک میں نافذ ہو گئے ہیں۔ یہ بل گزشتہ سال پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں صوتی ووٹ سے منظور ہوا تھا۔ دونوں ایوانوں سے اس بل کی منظوری کے دوران صرف پانچ گھنٹے کی بحث ہوئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب اپوزیشن کے 140 سے زائد ارکان پارلیمنٹ کو ایوان سے معطل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت اپوزیشن اور قانون کے ماہرین نے کہا تھا کہ جو قانون ملک کے عدالتی نظام کو بدل دے گا، اس پر پارلیمنٹ میں مکمل بحث ہونی چاہئے تھی۔بہر حال نئے قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہی ملک بھر کی 650 سے زیادہ ضلعی عدالتوں اور 16000 پولیس اسٹیشنوں نئے نظام کے تحت اپنا کام کرنا ہوگا۔
اِدھر کئی غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں نےان قوانین کی مخالفت کا بگل بجا دیا ہے۔ اس صورتحال کے مد
نظر پچھلے اتوار کو مرکزی حکومت کے عہدیداروں کو یہ کہنا پڑا کہ ریاستی حکومتیں اپنے طور پر’’ انڈین سیکورٹی کوڈ‘‘ میں ترمیم کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ نئے قانون کے نفاذ سے، انڈین جسٹس کوڈ، انڈین سول ڈیفنس کوڈ اور انڈین ایویڈنس کوڈ نے انڈین پینل کوڈ 1860، کوڈ آف کریمنل پروسیجر، 1973 اور انڈین ایویڈینس ایکٹ 1872 کی جگہ لے لی ہے۔ نئے قوانین میں ایف آئی آر، تفتیش اور سماعت کے لیے لازمی وقت کا تعین کیا گیا ہے۔ اب سماعت کے 45 دن کے اندر فیصلہ دینا ہوگا، شکایت کے تین دن کے اندر ایف آئی آر درج کرنا ہوگی۔ ایف آئی آر کرائم اینڈ کریمنل ٹریکنگ نیٹ ورک سسٹم (سی سی ٹی این ایس) کے ذریعے درج کی جائے گی۔ یہ پروگرام نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے تحت کام کرتا ہے۔ سی سی ٹی این ایس میں ایک ایک کرکے بہتر اپ گریڈ کیے گئے ہیں، جس سے لوگ پولیس اسٹیشن گئے بغیر ای ایف آئی آر آن لائن درج کر سکیں گے۔ تھانے میں زیرو ایف آئی آر بھی درج کی جا سکتی ہے چاہے جرم اس تھانے کے دائرہ اختیار میں آتا ہو یا نہ ہو۔ اس سے قبل صرف 15 دن کا پولیس ریمانڈ دیا جا سکتا تھا، لیکن اب اسے 60 یا 90 دن تک دیا جا سکتا ہے۔ کئی قانونی ماہرین کیس کی سماعت شروع ہونے سے قبل اتنے طویل پولیس ریمانڈ پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
بھارت کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرہ میں ڈالنے والے اقدامات کو نئے جرم کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ تکنیکی طور پر، آئی پی سی سے غداری کو ہٹا دیا گیا ہے، جس پر سپریم کورٹ نے بھی پابندی لگا دی تھی، اس میں نئی شق کو شامل کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیاں، جو پہلے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ جیسے خصوصی قوانین کا حصہ تھیں، اب انڈین جسٹس کوڈ میں شامل کر دی گئی ہیں۔ اسی طرح منظم جرائم کے لیے تین سال قید کی سزا ہے، جس میں چھوٹے منظم جرائم جیسے پک پاکٹنگ بھی شامل ہے۔ اس سے قبل ریاستوں میں اس حوالے سے مختلف قوانین موجود تھے۔ شادی کے جھوٹے وعدے کے تحت جنسی تعلقات کو خاص طور پر جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے لیے 10 سال تک کی سزا ہو گی۔ زنا اور دفعہ 377، جو ہم جنس پرستوں کے خلاف مقدمہ چلاتی تھی، اب ہٹا دی گئی ہے۔ کرناٹک حکومت نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ دفعہ 377 کو مکمل طور پر ہٹانا درست نہیں ہے کیونکہ اس کا استعمال غیر فطری جنسی جرائم میں کیا جاتا رہا ہے ۔ نئےقانون کے مطابق اب معاملے کی تفتیش میں فارنسک شواہد اکٹھا کرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کا زیادہ استعمال، جیسے کہ تلاشی اور ضبطی کی ریکارڈنگ، تمام پوچھ گچھ اور سماعتوں کو آن لائن منتقل کیا جائے گا۔نئے قانون کے مطابق اب صرف موت کی سزا پانے والے ہی رحم کی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل این جی اوز یا سول سوسائٹی گروپس بھی مجرموں کی جانب سے رحم کی درخواستیں دائر کرتے تھے۔
واضح ہو کہ ان نئے قوانین کے نفاذ سے ایک ہفتہ قبل حزب اختلاف کی حکومت والی ریاستوں کے دو وزرائے اعلیٰ، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور تمل ناڈو کے ایم کے اسٹالن نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو خط لکھ کر ان قوانین پر عمل درآمد نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ تمل ناڈو اور کرناٹک نے بھی اس قانون کے نام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 348 کہتا ہے کہ پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے قوانین انگریزی میں ہونے چاہئیں۔ ملک کی معروف وکیل اور سابق ایڈیشنل سالیسٹر جنرل اندرا جے سنگھ نے حال ہی میں صحافی کرن تھاپر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر یکم جولائی کو تین نئے فوجداری قوانین لاگو ہوتے ہیں تو ہمیں ایک بڑے ’’عدالتی مسئلہ‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ ملزم کی ’’زندگی اور آزادی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘‘اندرا جے سنگھ نے عوامی طور پر وزیر قانون کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام بڑے اپوزیشن لیڈروں سے اپیل کی ہے کہ وہ تینوں فوجداری قوانین پر اس وقت تک روک لگائیں جب تک ان پر مزید بحث نہیں ہو جاتی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پر ایک بار پھر غور سے غور کرنا چاہئے۔ انہوں نے اس انٹرویو میں کہا، ’’قانون کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک سزا کا مستحق نہیں جب تک کہ اس نے کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جب ایسا کرنا جرم تھا۔
قانون کی زبان میں اسے سبسٹینٹیو لاء یعنی بنیادی قانون کہا جاتا ہے۔
اندرا جے سنگھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’آئین کا آرٹیکل 21 بالکل واضح ہے کہ قانون کے ذریعہ قائم کردہ طریقہ کار کے علاوہ کسی بھی شخص کو زندگی اور آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ انسانی حقوق کی کارکن تیستا سیٹلواڈ نے بھی نئے فوجداری قوانین کو ’’آئین کا مذاق‘‘ قرار دیا ہے۔ سیٹلواڈ نے لکھا ’’بھارت کے نئے فوجداری قوانین: اصلاحات یا جبر؟‘‘ جمعہ کو اس موضوع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ، ’’یہ قوانین آئین میں درج حقوق کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان قوانین کو منظور کرنے سے پہلے تفصیلی بحث کی ضرورت تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘‘سیٹلواڈ کا کہنا ہے کہ یہ قوانین ’’جمہوریت اور جمہوری تانے بانے کے خلاف ہیں ‘‘ اور ’’ہندو راشٹر کی سمت میں بڑھتے قدم کی طرح ہیں۔‘‘ اب سابق ایڈیشنل سالیسٹر جنرل اندرا جے سنگھ ہوں، تیستا سیٹلواڈ ہوں یا کوئی دوسرا ماہر قانون۔یا پھر غیر بی جے پی والی ریاستوں کے وزیر اعلیٰ ہوں، اگرسب کا یہی خیال ہے کہ اس قانون کے نفاذ کی فی الحال ملتوی کر کے اس پر تفصیل بحث ہونے چاہئے، تو پھر حکمراں جماعت کو بھی نرم رخ اپنانتے ہوئے، ان کی تجویز پر توجہ دینی چاہئے۔نئے قوانین کے نفاذ پر اُٹھ رہی آوازوں کو نظر انداز کرنا جمہوری نقطۂ نظر سے درست نہیں ہے۔
*************