ویٹ اینڈ واچ کی پوزیشن میں رہنا بہترہے

تاثیر۲۲  جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

  پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوران مرکزی حکومت نے موجودہ دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے کل بروز سوموار لوک سبھا میں بہار کو خصوصی ریاست درجہ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ حکومت کا موقف ہے کہ موجودہ دفعات کے تحت بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دینا ممکن نہیں ہے۔ حکومت نے لوک سبھا کو بتایا کہ نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل (این ڈی سی) کے ذریعہ چند ریاستوں کو پہلے خصوصی زمرہ  میں شامل کیا  گیا تھا۔ وہ ریاستیں مقررہ شرطوں کو پورا کرتی تھیں۔ ان شرطوں کو سمجھنا ضروری ہے۔خصوصی ریاست کادرجہ نہیں دینے کافیصلہ متعلقہ تمام عوامل اور ریاست کی مخصوص صورت حال کے مد نظر لیا گیا ہے۔ اس سے قبل خصوصی ریاست کا درجہ دینے کی درخواست پر ایک بین وزارتی گروپ(آئی ایم جی)نے غور کیا تھا، جس نے 30 مارچ 2012 کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ آئی ایم جی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ موجودہ این ڈی سی کے پیمانے کی بنیاد پر بہار کے لیے خصوصی درجہ کا معاملہ نہیںبنتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں مناسب ’’بارگیننگ پاور‘‘ حاصل کرنے کے بعد، بہار کے وزیر اعلی نتیش
کمار اور ان کی پارٹی جے ڈی یو کی جانب سے ایک بار پھر ریاست کو خصوصی درجہ دینے کے مطالبے پر زور دیا جانے لگا ہے۔ اس مطالبہ میں بہار کی دیگر پارٹیوں نے بھی ان کی حمایت کی ہے۔ این ڈی اے کی حلیف ایل جے پی (رام ولاس) نے بھی بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ بہت پرانا ہے۔ یہ مطالبہ سال 2000 میں بہار سے جھارکھنڈ کے الگ ہونے کے بعد سے جاری ہے۔ دراصل اس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ بہار کی تقسیم کے وقت 90 فیصد صنعتیں جھارکھنڈ کے حصے میں چلی گئیں۔ زراعت پر منحصربہار کا کچھ حصہ سیلاب سے متاثر ہے۔ اس سے اس کی معاشی صحت پر بڑا اثر پڑ اہے۔ اس معاشی نقصان کی تلافی کے لیے مرکزی حکومت کو بہار کو مالی مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے، لیکن بہار کی تقسیم اور پھر ریاستی اور مرکزی حکومتوں کے درمیان بہتر تال میل کی کمی کی وجہ سے خصوصی ریاست کا مطالبہ ایک سیاسی مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔
  واضح ہو کہ  15 نومبر، 2000 کو جھارکھنڈ کی تشکیل کے وقت بہار میں آر جے ڈی کی حکومت تھی اور آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں مرکز میں این ڈی اے کی حکومت تھی۔ اس وقت بھی بہار کی اس وقت کی حکومت اور وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی نے یہ مطالبہ اٹھایا تھا،لیکن سیاسی کریڈٹ لینے دینے کے چکر میں یہ مطالبہ پورا نہیں ہوا۔  پھر 2005 میں ریاست میں آر جے ڈی کی حکومت ختم ہوئی اور نتیش کمار کی قیادت میں جے ڈی یوبی جے پی کی حکومت بنی، لیکن دوسری طرف، مرکز میں اقتدار میں تبدیلی آئی اور این ڈی اے حکومت چلی گئی۔ واجپئی کی قیادت والی این ڈی اے کو 2004 کے لوک سبھا انتخابات میں شکست ہوئی تھی۔ پھر منموہن سنگھ کی قیادت میں مرکز میں یو پی اے کی حکومت بنی۔ اس وقت بھی سیاست نے اپنا کھیل جاری رکھا۔وزیر اعلیٰ نتیش کمار منموہن حکومت سے بہار کو خصوصی درجہ دینے کا مطالبہ کرتے رہے، لیکن سیاسی کریڈٹ کی لڑائی میں یہ مطالبہ اس وقت بھی پورا نہیں ہوا۔2014 میں ملک اور بہار دونوں کی سیاست ایک بار پھر بدل گئی۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے مرکز میں مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی، لیکن بہار میں جے ڈی یو کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد ٹوٹ گیا۔  پھر 2015 کی اسمبلی میں جے ڈی یو اور آر جے ڈی ایک ساتھ آئے۔ اس کے بعد نتیش کمار اپنے حساب سے اپنی حکومت بناتے رہے، کبھی بی جے پی کے ساتھ اور کبھی آر جے ڈی کے ساتھ۔ لیکن، خصوصی ریاست کے ان کے مطالبے پر کبھی غور نہیں کیا گیا۔ کیونکہ اس وقت مرکز کی مودی حکومت کے لیے اتحادیوں کی حمایت کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
2024 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے مرکز میں مودی حکومت کے لیے اتحادیوں کی ضرورت کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ بی جے پی اپنے طور پر اکثریت سے محروم ہوگئی ہے۔ اسے حکومت بنانے کے لیے ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو کی شکل میں اتحادیوں کی ضرورت تھی۔  ایسے میں یہ مانا جانے لگا تھا کہ نتیش کمار مودی حکومت کی حمایت کے بدلے ریاست کو خصوصی درجہ دینے کا مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
  بہار کی تقسیم کو تقریباً ڈھائی دہائیاں گزر چکی ہیں۔ایک طویل عرصے کے بعد اس بار ایسا لگ رہا تھا کہ مرکزی حکومت بہار کے لئے کچھ خاص کرنے پر مجبور ہوگی۔ سیاسی حالات نے بھی اس مطالبے کو تقویت دی تھی۔یقین تھا کہ آج 22 جولائی کو لوک سبھا میں بجٹ پیش ہونے کے دوران بہار کا دیرنہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو جائے گا۔ لیکن، بجٹ سے ایک دن پہلے ہی، مرکزی حکومت نے متعلقہ دفعات کا حوالہ دے کر بہار کے 13 کروڑ عوام کو مایوس کر دیا۔
  اِدھرخصوصی ریاست کا درجہ نہ دینے کے بیان کے بعد بہار کی سیاست گرم ہو گئی ہے۔ آر جے ڈی سپریمو لالو یادو نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے استعفیٰ کا مطالبہ تک کر دیا ہے۔ جے ڈی یو کے قومی ترجمان کے سی تیاگی کا کہنا ہے کہ خصوصی ریاست کا درجہ بہار کے لوگوں کا حق ہے۔بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ اور خصوصی امداد ملنی چاہئے۔ ویسےخصوصی درجہ کا مطالبہ مسترد ہونے کے بعد جے ڈی یو بیک فٹ پر ہے۔ساتھ ہی لوک سبھا انتخابات میں 12 سیٹیں جیتنے کے بعد سے پارٹی خود کو مرکزی حکومت کے لئے ضروری سمجھ رہی ہے۔ نتیش کمار بار بار یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مودی حکومت کو غیر مشروط حمایت دے رہے ہیں۔ایسے میں پورا ملک یہ دیکھ رہا ہے کہ انھیں  مرکز کی طرف سے متوقع حمایت نہیں مل رہی ہے۔ کابینہ میں بھی جے ڈی یو کو باوقار وزارت نہیں دی گئی ہے۔ایسے میں یہ مانا جا رہا ہے کہ نتیش کمار کے سامنے اپنی پارٹی کی ساکھ کو بچانے کی بھی چنوتی ہے۔کچھ لوگ یہ مان رہے ہیں کہ نتیش کمار اس مدعے پر کوئی بڑا فیصلہ بھی لے سکتے ہیں، لیکن موجودہ سیاسی صورتحال میں ان کے این ڈی اے سے الگ ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ کیونکہ ان کے محض باہر نکلنے سے مودی حکومت کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ خصوصی ریاست کے ایشو پر ٹی ڈی پی بھی خاموش ہے۔ چنانچہ نتیش کمار کی این ڈی اے سے علیحدگی کے باوجود، ’’انڈیا‘‘ بلاک حکومت نہیں بنا سکتی ہے۔ایسے میں یہ مانا جا رہا ہے کہ نتیش کمار کو ابھی ویٹ اینڈ واچ کی پوزیشن میں ہی رہنا بہتر ہوگا۔