تاثیر۲۱ جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
آ ج 22 جولائی ہے۔ آج سے بھگوان شیو پر جلابھیشیک کے لئے عقیدتمندوں کی’’ کانور یاترا ‘‘ شروع ہو چکی ہے۔اس کانور یاترا کے حوالے سے اتر پردیش کی یوگی حکومت نے چند دنوں قبل بھارت کے آئین کے وقار کے خلاف اور مذہبی منافرت کو ہوا دینے والا ایک فیصلہ لیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد سے ملک کی اہم اپوزیشن پارٹیوں اور این ڈی اے کے بعض حلیف جماعتوں میں بے چینی دکھائی دے رہی ہے۔ اس فیصلے کو لے کر ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے مسلم لیڈروں نے اپنے اپنے انداز میں ردعمل دینا شروع کر دیا ہے ۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی اس فیصلے کا خوب چرچا ہو رہا ہے۔ملک کے بیشتر لوگ جہاں اس فیصلے کو بھارت کے سماجی تانے بانے اور ملک کے جمہوری نظام کے خلاف بتانے میں لگے ہیں وہیں ’’کٹر ہندتو وادی‘‘ اور ’’یوگی بھکت ‘‘ عناصر اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے یوپی کے سی ایم آدتیہ ناتھ یوگی کی پیٹھ تھپتھپانے میں مصروف ہیں۔
دراصل، یوگی حکومت نے ایک ہفتہ قبل ہی یہ فیصلہ لیا تھا کہ’’ کانور یاترا ‘‘ کے راستے پر واقع دکانوں کے چلانے والوں یا ان مالکان کو اپنی شناخت واضح کرنی ہوگی۔ یوگی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کانور یاتریوں کے عقیدے کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لئے کیا گیا ہے۔ فیصلے کے مطابق پورے اتر پردیش میں کانور یاتریوں کے راستے پر کھانے پینے کی دکانوں پر فرم کے نام اور ان کے مالکوں کے نام کے بورڈ لگائے جا چکے ہیں۔دکانوں میں کام کرنے والے مسلم اسٹاف کو ہٹایا جا چکا ہے۔ یوگی حکومت کے اس فیصلے کے بعد کئی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت اور کئی تنظیموں نے اس کی حمایت بھی کر رہے ہیں ۔ یوگی حکومت کے اس فیصلے پر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ این ڈی اے کی کئی حلیف جماعتوں کی طرف سے بھی ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس ردعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یوگی حکومت کے فیصلے سے این ڈی اے میں انتشار پیدا ہو رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب حکومت کی تشکیل کے بعد این ڈی اے میں کسی بھی مسئلہ پر اختلافات دیکھے جا رہے ہیں۔ این ڈی اے کے اتحادی حکومت سے ملک کے سماجی تانے بانے کو توڑنے والا حکم واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
این ڈی اےکی ایک اہم حلیف جماعت جے ڈی یو لیڈر کے سی تیاگی کا کہنا ہے کہ ’’ کانور یاترا ‘‘ کے راستے پر کھانے کی دکانوں پر مالکان کے نام ظاہر کرنے کے حکم کو واپس لیا جانا چاہئے۔ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل سکتی ہے۔ مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر کسی قسم کا امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ مذہب کی بنیاد پر اس طرح کا امتیاز غلط ہے اور اس سے فرقہ وارانہ تقسیم ہی بڑھے گی۔ یہ حکم پی ایم نریندر مودی کے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘‘ کے مفروضے کے خلاف ہے۔ یہ فیصلہ ملک کو فرقہ وارانہ تقسیم کی طرف لے جاتا ہے۔
مرکزی وزیر اور بی جے پی کی حلیف لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے صدر چراغ پاسوان نے اس حکم کی کھل کر مخالفت کی ہے، جس میں کھانے پینے والوں کے مالکان سے ان کے نام ظاہر کرنے کو کہا گیا ہے۔ چراغ کا کہنا ہے کہ وہ ذات پات یا مذہب کے نام پر امتیازی سلوک کی حمایت نہیں کریں گے چراغ کا کہنا ہے کہ میں اس فیصلے سے بالکل متفق نہیں ہوں۔ معاشرے میں دو قسم کے لوگ موجود ہیں، امیر اور غریب۔ مختلف ذاتوں اور مذاہب کے لوگ ان دونوں زمروں میں آتے ہیں۔اِدھر آر ایل ڈی سربراہ اور مرکزی وزیر جینت چودھری نے بھی واضح طور پر یوگی حکومت سے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ راجیہ سبھا ایم پی چودھری نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے ،’’ ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ بغیر سوچے سمجھے لیا گیا ہے۔کانوریوں کی خدمت ہر کوئی کرتا ہے۔ کانوریوں کو کوئی نہیں پہچانتا اور نہ ہی کانوریوں کی خدمت کرنے والوں کی شناخت مذہب یا ذات سے ہوتی ہے۔ اس معاملے کو مذہب اور ذات سے نہ جوڑا جائے۔‘‘لوک سبھا میں صرف دو ممبران پارلیمنٹ والی پارٹی آر ایل ڈی نے یوگی حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے بڑا سیاسی پیغام دیا ہے۔ احتجاج کی یہ آواز این ڈی اے کے اندر سے اٹھی ہے۔
واضح ہو کہ آر ایل ڈی کی حمایت کا مرکز مغربی یوپی میں ہے۔ 2024 کے انتخابات میں اس علاقے میں بی جے پی بہت کمزور ہو چکی ہے۔ وہیں بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں آر ایل ڈی اپنی دونوں سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس کی جیت کا اسٹرائیک ریٹ سو فیصد رہا ہے۔ آر ایل ڈی سربراہ این ڈی اے کے ساتھ جانے کے باوجود اپنی سیکولر شناخت قائم رکھناچاہتے ہیں۔ ان کی پارٹی کسانوں کی پارٹی رہی ہے۔ مغربی یوپی میں جاٹ برادری یقینی طور پر سب سے بڑی کسان برادری ہے۔ لیکن، اس علاقے میں مسلم کمیونٹی کی ایک اچھی خاصی تعدادزراعت سے بھی وابستہ ہے۔ مسلم کمیونٹی کا ایک حصہ اب بھی جینت کو ووٹ دیتا ہے۔ جینت چودھری اپنے والد اجیت سنگھ اور اپنے دادا چودھری چرن سنگھ کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں۔ آر ایل ڈی کی اتر پردیش یونٹ کے صدر رام آشیش رائے کا کہنا ہے کہ ہم سب چودھری چرن سنگھ کے پیروکار ہیں۔چودھری چرن سنگھ نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ معاشرہ ذات یا مذہب کی بنیاد پر منقسم ہو۔ وہ گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار تھے۔ ہم ہمیشہ انھی کے راستے پر چلیں گے۔
اِدھر بہار کے سابق ڈپٹی سی ایم تیجسوی یادو نے مرکزی حکومت کے بارے میں مبالغہ سے بھری ہوئی ایک بڑی پیشین گوئی کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت اپنی 5 سال کی مدت پوری نہیں کر پائے گی۔حالانکہ جس طرح بی جے پی کی پالیسیوں کے خلاف اتحادی سامنے آ رہے ہیں ، اس سے یہی لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کے لئے مشکلات کا دور شروع ہو گیا ہے۔ 9ویں شیڈول میں خصوصی درجہ، ذات پر مبنی مردم شماری، ریزرویشن فیصد میں اضافہ کو لے کر پہلے ہی پیچیدگیاں تھیں، اب سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کی جانب سے مذہبی منافرت سے بھرے حالیہ فیصلے نے ایک نیا ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔اپوزیشن اتحاد’’انڈیا‘‘ کی دوست جماعتوں کی طرف سے بھی مخالفت زور پکڑتی جا رہی ہے۔ سیاست کے چند ماہرین یہ مانتے ہیں کہ تیجسوی یادوکی پیشین گوئی صدفیصد غلط بھی نہیں ہو سکتی ہے۔