!کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے

تاثیر۱۶  جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

اتحاد ملت کونسل (آئی ایم سی)، بریلی نے اسلام قبول کرنے والے لڑکے اور لڑکیوں کا نکاح پڑھانے کا اعلان کیا کر دیا ہے، ایک ساتھ تما م ہندو تنظیمیں چراغ پا ہو گئی ہیں۔آئی ایم سی کے سر براہ مولانا توقیر رضا نے ابھی صرف اتنا ہی کہا ہے کہ ایسے بہت سے محبت کرنے والے جوڑے ان کے ساتھ رابطے میں ہیں، جو اسلام قبول کرکے اپنی پسند کے مسلمان لڑکے/ لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں، اس کی مخالفت میںوہ سبھی لوگ سامنے آ گئے ہیں جو ڈھائی لاکھ روپئے، پولس سے تحفظ، عدالتی کارروائیوں میں مد د اور ہر طرح کی مدد کا لالچ دے   ہندو نوجوانوں کو مسلم لڑکیوں کو جھانسے میں پھنسا کر ، ان سے شادی کرنے کی ترغیب ہی نہیں دیتے ہیں بلکہ اسے ایک اعلانیہ مہم کے طور چلا بھی رہے ہیں۔
  مولانا توقیر رضا نے کا کہنا ہے کہ ہم نے یہ پابندی عائد کی تھی کہ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی لالچ اور عشق میں اسلام قبول کرنا چاہے تو اسے مسلمان نہیں ہونے دیا جائے گا، لیکن اس پابندی میں نرمی کے لیے بہت دباؤ تھا۔ یہ بات سامنے آئی کہ بہت سے ایسے لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو ایک ساتھ پڑھتے اور کام کرتے ہیں اور آپس میں تعلقات استوار کئے ہوئے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر وہ لیو ان ریلیشن میں بھی رہ رہے ہیں۔مولانا کے مطابق قانون متفقہ تعلقات کی اجازت دیتا ہے، لیکن مذہب ایسا نہیں کرتا۔ ہندو مذہب میں بھی اسے پسند نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ ہم جنس پرستی کے قانون میں بھی حق ہے لیکن ہندوستانی ثقافت اور اقدار اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ اسی لیے مذہب قبول کرنے کے خواہشمند نوجوانوں اور عورتوں کی شادیاں کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔اس حوالے سے احتجاج کے خوف کے سوال پر مولانا توقیر نے کہا کہ ہم مل جل کر کام کرنے والوں کو جرائم سے بچانا چاہتے ہیں۔  بہت سے لڑکے اور لڑکیاں ہندو بن چکے ہیں، لیکن ہم نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو اعتراض کرنا چاہیے۔ مذہب کی تبدیلی ذاتی معاملہ ہے۔ اگر کوئی پیسے یا دباؤ کے بغیر مذہب تبدیل کر رہا ہے تو اس پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈا لا جانا چاہیے۔ ہندو رسم و رواج کے مطابق سات چکر اور مسلم رسم کے مطابق نکاح ہونا چاہیے۔ یہ نکاح صحیح ہیں۔ مولانا نے کہا کہ کسی بھی حالت میں لیو ان برداشت نہیں کیا جائے گا۔مولانا نے کہا کہ مذہب کی تبدیلی اور شادی کے لیے قریبی اضلاع اور شہروں سے درخواستیں آئی ہیں۔  اس میں ایم پی کا ایک جوڑا بھی آیا ہے۔ ان کے مطابق ان نوجوانوں اور خواتین کی شناخت ابھی ظاہر نہیں کی جا رہی کیونکہ انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انتظامیہ نے چاہا تو باہمی اتفاق سے مسٗلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔
  مولانا توقیر رضا کے مطابق فی الوقت ان کے پاس 23 درخواستیں ہیں، جن میں سے 8 لڑکے اور 15 لڑکیاں ہیں، جو اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ تقریباً مذہب تبدیل کر چکے ہیں، پہلے ہی باہمی رضامندی سے اپنا راستہ طے کر چکے ہیں۔ چنانچہ 21 جولائی کو باقاعدہ مذہب کی تبدیلی اور ایسے پانچ لڑکوں اور لڑکیوں کی اجتماعی شادی کا پروگرام ہے۔ مولانا توقیر رضا ایسا کرکے ایسے رشتوں کو  سماجی پہچان دینا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے اجتماعی شادی کا پروگرام منعقد کرنے کے لئے بریلی کے میونسپل مجسٹریٹ سےاجازت مانگی ہے، لیکن انتظامیہ نے ابھی تک اس پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ مولانا توقیر رضا  کا ماننا ہے کہ ’’ہم قانونی اور مذہبی طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ یہ لو جہاد کا معاملہ نہیں ہے، کیونکہ یہ لوگ پہلے سے ہی رشتہ میں ہیں، جو اپنی تمام چیزوں کا فیصلہ کر چکے ہیں۔‘‘
آئی ایم سی کی جانب سے سٹی مجسٹریٹ کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ مولانا توقیر رضا خان کے ساتھ بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں رابطے میں ہیں، جو اسلام پر یقین رکھتے ہیں اور مذہب اسلام میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور مسلمان لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔اس خط میں کہا گیا ہے کہ تمام لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہیں اور انہیں نہ تو کوئی رغبت دلائی گئی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا دباؤ ڈالا گیا ہے۔ وہ بھارت کے آئین کے تحت قانونی طور پر اپنی شادی کرنا چا ہتے ہیں۔ ملک میں گنگا جمنی ثقافت کی مثال قائم کرنے کے لیے اس طرح کے اجتماعی شادیوں کے پروگراموں کی اجازت ہونی چاہیے۔ آئی ایم سی نے 21 جولائی کو بریلی کے خلیل ہائر سیکنڈری اسکول میں اجتماعی نکاح  کا پروگرام طے کر رکھا ہے۔صرف اس کے لئے انتظامیہ سے اجازت ملنے کا انتظار ہے۔
اس پورے معاملے پر ایس پی سٹی راہل بھاٹی نے کہا کہ محرم چل رہا ہے۔ ساون بھی شروع ہونے والا ہے۔ ایسے میں پولیس انتظامیہ کی ترجیح شہر میں امن و امان برقرار رکھنا ہے۔ اگر کسی پروگرام کی وجہ سے پرامن ماحول میں خلل پڑنے کا امکان ہے تو اس پر غور کیا جائے گا۔ پولیس مکمل تفتیش کے بعد ہی اجازت کی درخواست پر رپورٹ دے گی۔
اِدھر ایک ہندو تنظیم کے سربراہ پنڈت کو شلیندر،جنہوں نے لالچ اور ساز باز کی بنیاد پر کئی مسلمان لڑکیوں کا مذہب تبدیل کراکر ان کی شادیاں کرائی ہیں، کا کہنا ہے کہ ہے کہ مولانا تو 2010 کے فسادات کے ملزم ہیں۔ ساون کے مہینے میں مولانا ہندو لڑکوں اور لڑکیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرکے ایک دوسرے سے شادی کر کے ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ پنڈت کو شلیندر نے وزیر اعلیٰ اور انتظامیہ سے مولانا کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ساتھ ہی مولانا توقیر کو بھی گھر واپسی کی دعوت دی ہے۔ناتھ نگری تحفظ گروپ کے درگیش کمار گپتا کا کہنا ہے کہ ہندو سماج کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی مسلم مذہب کے نوجوان  لڑکوں اور لڑکیوں سے شادی کرنا غلط ہے۔  ان کے مطابق انھوں نے اپنی تنظیم کیجانب سے احتجاجاً ضلع مجسٹریٹ کو میمورنڈم دیا ہے ۔شریڈی سائی سرو دیو مندر کے مہنت پنڈت سشیل پاٹھک کا کہنا ہے کہ ساون کے مقدس مہینے میں مولانا کا اعلان امن کو خراب کرنے کی سازش ہے۔ اس معاملے پر بیشتر ملّی تنظیمیں خاموش ہیں  اور جو کچھ بول رہی ہیں ، ان کی بولی مولانا کے خلاف ہے۔ ویسے مولانا کے اس قدم نے بریلی کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ دراصل بریلی میں ایک طویل عرصے سے بین مذہبی شادیاں ہو رہی ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں جب مسلمان ہندو بن جائیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس لیے اب لیو ان ریلیشن میںرہنے والے جوڑے اگر اپنی خوشی اور مرضی سے اسلام مذہب قبول کر تے اور آپس میں شادیاں کرتے ہیں تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے  !
*****************