تاثیر۲۵ جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
لوک سبھا انتخابات 2024 کے نتائج کے اعلان کے بعد سے ہی اتر پردیش بی جے پی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا ہے۔ بی جے پی اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کے لئے اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی اور اس میں سب سے بڑا کردار اتر پردیش نے ادا کیا۔یاد رہے یہ وہی بی جے پی ہے جس کی کبھی اتر پردیش میں طوطی بولتی تھی۔مگر پچھلے لوک سبھا انتخابات میں وہ دوسرے نمبر پر کھسک گئی۔ سماج وادی پارٹی نے بی جے پی سے زیادہ سیٹیں جیتیں۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی میں جائزہ اور غور و فکر کا دور شروع ہوا اور کہیں نہ کہیں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ حملہ کی زد میں آ گئے۔
اِدھر لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے او بی سی ووٹوں کو لے کر بھی بی جے پی کی تشویش کو بڑھا دیا ہے۔مانا جا رہا ہے کہ او بی سی اور دلت ووٹروں کا ایک بڑا طبقہ بی جے پی سے کھسک گیا ہے۔ان سب کے درمیان اتر پردیش کے ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ بھی کافی سرگرم ہو گئے ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے اندر او بی سی لیڈر کافی بے چین ہیں۔حالانکہ یہ بات سننے میں آ رہی ہے کہ آر ایس ایس کی جانب سے ڈیمج کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ویسے فی الحال ابھی پورا زور ریاست کی دس اسمبلی سیٹوں پر عنقریب ہونے والے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے پر ہے۔ ان نشستوں پر انتخابات کا ابھی اعلان نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے ضمنی انتخابات کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ اگر اس میں بی جے پی کی کارکردگی اچھی رہی تو اس سے یوگی آدتیہ ناتھ کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ اگر نتائج اچھے نہیں رہے تو بی جے پی اور یوگی آدتیہ ناتھ دونوں کےلئے آگے کا راستہ مشکل ہو جائے گا۔ اس بیچ بلدیاتی اداروں میں، نچلی سطح کے 2800 کارکنوں کو کونسلر بنا کر ان کے عدم اطمینان کو دورکرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ کارکنوںکو نظر اندا ز کئے جانے کی وجہ سے ان میںپیدا ناراضگی کو ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ نے بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ تنظیم حکومت سے بڑی ہے اور یہ بھی کہ کارکنوں کا درد میرا درد ہے۔دراصل، کیشو پرساد نے پچھلے دنوں یوگی آدتیہ ناتھ پر بالواسطہ حملہ کیا تھا اور یہ الزام لگایا تھا،’’حکومت میں عام پارٹی کارکنوں کو مناسب احترام نہیں دیا جا رہا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں یوپی میں بی جے پی کی مایوس کن کارکردگی کے پیچھے پارٹی تنظیم کو نظر انداز کرنا ایک بڑی وجہ ہے۔‘‘ ویسے آج سی ایم آدتیہ ناتھ نیتی آیوگ گورننگ کونسل کی میٹنگ میں شرکت کے لیے دہلی میں ہوں گے۔ اس دوران وہ پی ایم نریندر مودی اور بی جے پی کے سینئر رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں گے۔ کیشو پرساد موریہ، ریاستی بی جے پی صدر بھوپیندر چودھری اور یوپی بی جے پی کے کچھ دیگر سینئر لیڈروں کی بھی بی جے پی کی مرکزی قیادت سے ملاقات متوقع ہے۔
میڈیا میں ایسی خبریں آئی ہیں کہ صرف کیشو موریہ اور سی ایم یوگی ہی نہیں، یوپی بی جے پی میں پارٹی کے کئی لیڈر ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل رہے ہیں۔پریاگ راج میں پارٹی کارکنوں کی میٹنگ میں یمناپار کے صدر ونود پرجاپتی نے کہا تھا کہ لوک سبھا انتخابات میں کارکنوں نے بوتھ پر اپنا کام پوری لگن کے ساتھ نہیں کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم سماج وادی پارٹی سے نہیں بلکہ اپنے لوگوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ لوک سبھا انتخابات 2024 میں اتر پردیش میں بی جے پی کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ پارٹی نے یہاں 80 میں سے صرف 33 سیٹیں جیتی ہیں، جب کہ 2019 میں بی جے پی نے یہاں 62 سیٹیں جیتی تھیں۔ یہی نہیں اس کا ووٹ شیئر بھی 49.98 فیصد سے کم ہو کر 41.37 فیصد رہ گیا۔ وارانسی لوک سبھا سیٹ پر پی ایم مودی کی جیت کے باوجود ان کی جیت کا مارجن پچھلی بار کے مقابلے کم ہوگیا ہے۔
بہر حال انتخابی نتائج آنے کے بعد سے ہی پارٹی کے تمام رہنما اب شکست کی وجوہات کی تحقیقات میں مصروف ہیں۔ یوپی بی جے پی کی ٹاسک فورس نے عام انتخابات میں اتر پردیش میں بی جے پی کی شکست کی وجوہات بتائی ہیں۔ اس میںپارٹی کی اندرونی لڑائی سے لے کر ذات پات کے تانے بانے اور سرکاری ملازمین کے عدم تعاون تک کی اہم وجوہات بتائی گئی ہیں۔یہی نہیں، سی ایم یوگی کے مشوروں کو نظر انداز کرنا بھی شکست کی ایک وجہ بتائی جا رہی ہے۔ اسی منتھن کے درمیان حال ہی میں، ریاست کا سیاسی درجہ حرارت اس وقت زیادہ بڑھ گیا جب اوم پرکاش راج بھر نے ڈپٹی سی ایم کیشو موریہ سے ملاقات کی۔ جس کی تصویر کیشو موریہ کی ٹیم نے سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔ اگلے دن سنجے نشاد بھی کیشو موریہ سے ملنے آئے۔ ایسے میں یہ پیغام آنے لگا کہ یوپی بی جے پی میں او بی سی دھڑا الگ سوچ رہا ہے اور الگ کام کر رہا ہے۔ اس دوران اکھلیش یادو نے بھی بی جے پی پر حملہ کر دیا۔ ان کے مطابق، بی جے پی کی مرکزی قیادت یہ چاہتی ہے کہ بی جے پی اتر پردیش کے درمیان یہ جھگڑا جاری رہے اور اس میں مزید اضافہ ہو، تاکہ مرکز میں کمزور بی جے پی اپنے حساب سے یوپی میں اپنا راستہ نکال سکے۔ فی الحال وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اپنے ایم ایل ایز کی ناراضگی دور کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سنگھ کا ایک طبقہ بھی بی جے پی کے اندر موجود خلیج کو پاٹنے میں لگا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کےاو بی سی ایم ایل ایز کی باہمی ملاقاتیں وہاں کی سیاست میں کوئی نیا گل کھلاتی ہیںیا سنگھ کی مداخلت سے ان کی ناراضگی آہستہ آہستہ کم ہو جاتی ہے۔فی الحال یوپی کی بی جے پی کے اندر سرد جنگ جاری ہے۔