! ایسی ماؤں کوہزار بار سلام

تاثیر  ۱۰   اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

پیرس میں منعقد تقریب میں پاکستان کے ارشد ندیم کو جیولن تھرو کے مقابلوں میں نیا اولمپک ریکارڈ قائم کرنے پر گولڈ میڈل سے نواز ا گیا ہے۔جیولن تھرو فائنل کی میڈل تقسیم کی تقریب میں انڈیا کے نیرج چوپڑا کو چاندی اور گرینیڈا کے اینڈرسن پیٹرز کو کانسے کا تمغہ دیا گیا ہے۔پاکستان کے ارشد ندیم کے پیرس اولمپکس میں جیولن تھرو کے مقابلوں میں نیا اولمپک ریکارڈ بنانے اور طلائی تمغہ حاصل کرنے کے بعد مبارکبادیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کے لیے کئی انعامات کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ارشد نے یہ کارنامہ 92.97 میٹر فاصلے پر نیزہ پھینک کر سرانجام دیا جو ان کے کریئر کی بہترین کارکردگی بھی ہے۔ جمعرات کی شب سٹیڈ ڈی فرانس میں ہونے والے فائنل مقابلے میں ارشد کی پہلی تھرو فاؤل قرار دی گئی، تاہم دوسری تھرو نے 2008 میں قائم کیا گیا اولمپک ریکارڈ توڑ دیا۔یہ ارشد کے کریئر کی سب سے بڑی جبکہ دنیا میں اب تک پھینکی جانے والی چھٹی سب سے طویل جیولن تھرو تھی۔ارشد نے اس مقابلے میں اپنی آخری تھرو بھی 90 میٹر سے زیادہ فاصلے پر پھینکی تھی۔

یہ دوسرا موقع ہے کہ ارشد نے اپنے کریئر میں 90 میٹر سے زیادہ فاصلے پر تھروز کی ہیں۔ ماضی (2022) میں انھوں نے برمنگھم میں دولتِ مشترکہ کھیلوں میں 90.18 میٹر فاصلے پر جیولن پھینک کر طلائی تمغہ جیتا تھا۔جیولن کے فائنل مقابلے میں چاندی کا تمغہ ارشد کے دیرینہ حریف اور دفاعی چیمپیئن انڈیا کے نیرج چوپڑا نے حاصل کیا، جنھوں نے 89.45 میٹر کی تھرو کی تھی۔ یہ رواں برس ان کی بہترین تھرو تھی۔پیرس اولمپکس میں کوالیفیکیشن راؤنڈ میں انڈین ایتھلیٹ نیرج چوپڑا اپنی 89.34 میٹر کی تھرو کی بدولت پہلے نمبر پر رہے تھے، جبکہ ارشد ندیم 86.59 میٹر کی تھرو کے ساتھ چوتھی پوزیشن پر تھے۔ارشد ندیم کی اس کامیابی سے پاکستان کا ان عالمی کھیلوں میں میڈل کے حصول کا تین دہائیوں سے جاری انتظار بھی بالآخر ختم ہو گیا ہے۔

ارشد اولمپکس کی تاریخ میں انفرادی مقابلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والے پہلے جبکہ کوئی بھی میڈل جیتنے والے تیسرے پاکستانی ہیں۔ان سے قبل 1960 میں پہلوان محمد بشیر نے روم اور 1988 میں باکسر حسین شاہ نے سیول اولمپکس میں کانسے کے تمغے جیتے تھے۔ارشد کی اس کارکردگی کی بدولت پاکستان اولمپکس میں 1992 کے بعد پہلی مرتبہ کوئی تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوا ہے۔ جبکہ طلائی تمغے کے لئے پاکستان کا انتظار اس سے بھی کہیں طویل تھا، کیونکہ پاکستان نے اولمپکس میں اپنا آخری طلائی تمغہ 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں ہاکی کے مقابلوں میں جیتا تھا۔ارشد کی اس کامیابی کے بعد اولمپکس کی تاریخ میں پاکستان کے کل تمغوں کی تعداد 11 ہو گئی ہے، جن میں سونے اور کانسے کے چار، چار جبکہ چاندی کے تین تمغے شامل ہیں۔ ان 11 میں سے آٹھ تمغے ہاکی جبکہ باقی تین جیولن تھرو، ریسلنگ اور باکسنگ میں جیتے گئے ہیں۔

ارشد ندیم نے طلائی تمغہ جیتنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے آئندہ اس سے بھی بہتر مظاہرے کے عزم کا اظہار کیا اوربر سبیل تذکرہ کہا ، ’’ جیسے بھارت پاکستان کے کرکٹ میچ میں دونوں ملکوں کے لوگ سب کام چھوڑ کر ٹی وی دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں ویسے ہی جب میرا اور نیرج بھائی کا میچ ہوتا ہے، تب بھی سب لوگ کام کاج چھوڑ کر ٹی وی پر ہمیں دیکھتے ہیں۔ ‘‘ اس موقع پر چاندی کا تمغہ جیتنے والے ، بھارت کے نیرج چوپڑا نے کہا،’’ ہر ایتھلیٹ کا ایک دن ہوتا ہے، ٹوکیو میں میرا دن تھا، لیکن آج ارشد کا دن ہے۔ میں اور ارشد 2016 سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ پچھلے مقابلوں میں خدا میرے ساتھ تھا ،مگر آج اس نے ارشد کا ساتھ دیاہے۔ میں بہت خوش ہوں کیونکہ ارشد بہت محنت کرتا ہے۔ہمارے دونوں ملکوں میں جیولن کے متعلق زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے۔ اب دونوں ملکوں میں جیولن بہت مقبول ہو چکی ہے اور ہمیں امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان آگے آئیں گے اور جیولن اٹھائیں گے۔‘‘نیرج چوپڑا کے والد ستیش چوپڑا کا کہنا تھا ،’ ’اس بار گولڈ میڈل پاکستان کے ارشد ندیم نے جیتا، انھوں نے بہت محنت کی اور اتنا اسکور بنایا کہ کوئی کھلاڑی اسے عبور نہ کر سکا۔ہمیں خوشی ہے کہ ہم چاندی کا تمغہ جیت سکے اور اس بات سے بھی مطمئن ہیں کہ ہمیں اتنا ہی ملا جتنا ہماری کارکردگی تھی۔‘‘

اِدھرنا صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی جہاں نیرج کے سلور میڈل جیتنے کی خوشی منائی جا رہی ہے وہیں ارشد کو مبارکباد دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ لوگ اس بات پر خوش ہیں کہ گولڈ اور سلور دونوں میڈل ایشیا میں ہی آئے ہیں۔بھارت کے ڈاکٹر گورو گرگ نے ایکس پر لکھا ہے،’ ’ارشد ایسے لیجنڈ ہیں کہ آپ ان کے کارنامے کو الفاظ میں نہیں سمو سکتے۔ایک ایسے ملک سے جہاں انھیں زیادہ وسائل میسر نہیں ہیں اور جہاں ان کے پورے گاؤں نے پیسے اکھٹے کرکے تیاری میں ان کی مدد کی ہے۔ ان کا کارنامہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔‘‘پروفیسر اشوک سین نے ایکس پر لکھا ’ایک پاکستانی اور ایک انڈین دونوں سخت ترین حریف، لیکن دونوں بہت اچھے دوست ہیں۔ ایک نے سونے اور دوسرے نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ اگر وہ دوست بن سکتے ہیں تو باقی کیوں نہیں؟ ‘‘

اس ضمن میںسب سے بڑی بات تو نیرج چوپڑا کی والدہ سروج دیوی نے کہی ہے ۔ گھر کے باہر جمع میڈیا کے نمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہا ،’’ہم بہت خوش ہیں۔ یہ چاندی کا میڈل بھی ہمارے لئے سونے جیسا ہے اور جس (ارشد ندیم) نے سونا جیتا ہے وہ بھی ہمارا بیٹا ہے۔‘‘ سروج دیوی کے اس تبصرے کی تعریف تو وزیر اعظم نریندر مودی تک نے کی ہے۔دوسری جانب کچھ ایسی ہی بات ارشد ندیم کی ماں رضیہ پروین نے بھی کہی ہے۔ میڈیا کے نمائندوں کے سامنے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بات ہی بات میں انھوں نے بتادیا ہے کہ ایک ماں کا دل کتنا بڑا ہوتاہے۔ انھوں نے برجستہ کہا،’’ وہ (نیرج چوپڑہ ) میرے بیٹے جیسا ہے۔وہ ندیم کا دوست ہے اور بھائی بھی۔ہار اور جیت تو قسمت کا کھیل ہے۔وہ بھی میرا بیٹا ہے اور اللہ اسے بھی کامیاب کرے۔اسے بھی میڈل جیتنے کی توفیق عطا کرے۔‘‘بہر کیف نیرج چوپڑہ اور ارشد ندیم کی اس شاندار کامیابی پر بھارت اور پاکستان کے لوگوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہے۔دونوں ملکوں میں جیت کا جشن منایا جا رہا ہے۔ اور اس جشن کے درمیان ہی دونوں ماؤں کی طرف سے’’ لٹایا گیا پیار‘‘ بھی موضوع بحث بنا ہواہے۔ سب کا یہی کہنا ہے کہ ایسا جواب تو برصغیر کی آب و ہوا میں پلی بڑھی مائیں ہی دے سکتی ہیں۔ایسی ماؤں کوہزار بار سلام !