تاثیر ۶ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
بنگلہ دیش کی تاریخ میں 5 اگست، 2024 نے ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ بنگلہ دیش کے ناراض عوام نے پی ایم شیخ حسینہ کا تختہ پلٹ کر رکھ دیا۔ اچانک شیخ حسینہ کی مشکلات اتنی بڑھ گئیں کہ انہیں اپنے ملک سے بھاگ کر بھارت میں پناہ لینی پڑ گئی۔ شیخ حسینہ کے ملک سے فرار ہوتے ہی بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین کے حکم سے 17 سال سے قید، بنگلہ دیش کی سابق پی ایم خالدہ ضیاء کو رہا کر دیا گیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ دو خواتین ہی یکے با دیگرے آج تک حکومت میں رہی ہیں۔5 اگست کو جس طرح شیخ حسینہ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں، اسی طرح خالدہ ضیاء کو بھی ایک وقت میں اپنی کرسی گنوانی پڑی تھی۔ خالدہ ضیا 2001 سے 2006 تک بنگلہ دیش کی پی ایم رہیں۔ لیکن 2006 میں یکا یک ملک کے حالات بگڑ گئے اور سیاسی تشدد اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ حالات ایسے بن گئے کہ فوج کو ملک کی کمان سنبھالنی پڑی۔ اس دوران خالدہ ضیاء اور ان کے دونوں بیٹوں پر کرپشن کے الزامات لگے۔ بعد میں جب 2009 میں شیخ حسینہ کی حکومت بنی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ خالدہ ضیا کو دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دیا جائے گا۔
سال 2018 میںخالدہ ضیاء پر اپنے شوہر کے نام پر بنائے گئے یتیم خانے کے فنڈز میں خورد برد کا الزام لگا ۔ پھر سال 2018 میں ہی خالدہ ضیا کو کرپشن کے دو الزامات میں 17 سال قید کی سزا سنائی گئی۔سال 1996 میںخالدہ ضیاء بنگلہ دیش کی پی ایم تھیں۔ مگر چند ماہ بعد ایک تحریک کی وجہ سے انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ درحقیقت جب بنگلہ دیش میں 15 فروری، 1996 کو انتخابات ہوئے تو شیخ حسینہ کی پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا کہ خالدہ ضیا نے انتخابات میں دھاندلی کی ہے۔ اپوزیشن نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور خالدہ ضیا کو ان کے عہدے سے ہٹانے کےلئےملک بھر میں عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی۔ یہ تحریک اس قدر پرتشدد ہو گئی کہ خالدہ ضیا کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔
بنگلہ دیش میں پھیلے پر تشدد مظاہروں کے درمیان پی ایم شیخ حسینہ کے استعفیٰ نے ملک کو ایک بار پھر بڑے بحران سے دو چار کر دیا ہے۔البتہ اس وقت آرمی چیف نے بنگلہ دیش میں کمان سنبھال لی ہے۔ اس دوران ایک نام پورے ملک میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو پی ایم بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ فی الحال محمد یونس کو بنگلہ دیش میں نئی حکومت کی تشکیل کے لیے مشیر بنا دیا گیا ہے۔ عبوری حکومت کا خاکہ انھی کی سربراہی میں تیار کیا جائے گا۔قابل ذکر ہے کہ یونس نے بنگلہ دیش میں گرامین بینک قائم کیا تھا۔بنگلہ دیش سے غربت کے انسداد کے لئے انہیں 2006 میں امن کا نوبل انعام ملاتھا۔ وہ ایک سماجی انٹر پرینور، بینکر، ماہر اقتصادیات اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے رہنما ہیں۔ 28 جون ، 1940 کو پیدا ہوئے محمد یونس کو ریاستہائے متحدہ کے صدارتی تمغہ برائے آزادی سے نوازا گیا ہے۔ انہوں نے 1961 سے 1965 تک بنگلہ دیش کی چٹوگرام یونیورسٹی سے معاشیات کی تعلیم حاصل کی ،جس کے بعد انہوں نے وانڈر بٹ یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں 2012 میں گلاسگو کیلیڈونیم یونیورسٹی کا چانسلر بھی بنایا گیا تھا۔
اِدھر شیخ حسینہ کے بھارت سے ہوتے ہوئے لندن میں پناہ لینے کے منصوبے پر پانی پھرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ موجودہ صورتحال کی وجہ سے ان کے اگلے چند دنوں تک بھارت چھوڑنے کا امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ موجودہ صوتحال کے پیش نظر ان کو اگلے چند دنوں تک بھارت میں ہی رہنا پڑ سکتا ہے۔انھیں کسی نا معلوم مقام پر سخت سیکیورٹی میں رکھا جا رہا ہے۔ مقررہ پروگرام کے تحت شیخ حسینہ کو اپنی بہن ریحانہ کے ساتھ عارضی پناہ کے لئے بھارت سے لندن جانا تھا، لیکن اب وہ دیگر آپشنز پر غور کر رہی ہیں، کیونکہ برطانیہ کی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ انہیں پرتشدد مظاہروں کے پیش نظر کسی وجہ سے لندن جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔حسینہ نے لندن جانے کا فیصلہ اس لئے کیا تھا کیونکہ ریحانہ کی بیٹی ٹیولپ صدیق برطانوی پارلیمنٹ کی رکن ہیں۔
بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل ایس ایم شفیع الدین کا کہنا ہے کہ ملک میں عبوری حکومت کے قیام تک فوج ہی ملک کی کمان سنبھالے گی۔ برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے بنگلہ دیش کی مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے قائم مقام چیئرمین طارق رحمان نے ٹوئٹر پر لکھا ہے، ’’شیخ حسینہ کا استعفیٰ عوام کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ دوسری طرف برطانیہ میں مقیم بنگلہ دیشیوں کی ایک بڑی آبادی شیخ حسینہ حکومت کے خلاف عوامی بغاوت سے خوش ہے۔ 5 اگست، 2024 کو جیسے ہی تختہ پلٹ کی خبریں عام ہوئی لوگ اپنےملک کا جھنڈا ہاتھوں میں تھامے جشن منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے اور کہنے لگے بنگلہ دیش کے لئے یہ دوسری آزادی ہے۔ ان کا کہنا تھا ، ’’ہمیں پہلی بار آزادی 1971 میں ملی لیکن، مطلق العنان شیخ حسینہ زبردستی ملک پر حکومت کر رہی تھیں۔ حکومت برطانیہ، جرمنی، امریکہ ، روس اور سری لنکا نے بنگلہ دیش میں جمہوری حکمرانی کی منظم اور پرامن منتقلی کو ضروری قرار دیا ہے ۔بنگلہ دیش کے عوام کو بھی آئینی طریقے سے ملک میں جمہوری حکومت کی جلد واپسی کا انتظار ہے۔