تاثیر ۹ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے نئے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے عوام سے ملک میں تشدد کو فوراََ بند کرنے کی اپیل کی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر تیزی سے وائرل ہوئے ویڈیو میں پروفیسر محمد یونس کو اپنے ساتھ کھڑے طلبہ رہنماؤں کو خبردار کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے ۔ وہ کہہ رہے ہیں، ’’ اقلیتوں پر حملے بند نہ ہوئے تو استعفیٰ دے دیں گے۔ اگر آپ اپنے ملک کی قیادت کرنے کے لیے مجھ پر اعتماد کرتے ہیں، تو پہلا قدم یہ ہے کہ عوام بالخصوص اقلیتوں پر ہونے والے تمام حملوں کو ابھی روکا جائے۔ اس کے بغیر میری کوششیں بیکار ہیں، اور بہتر ہو گا کہ میں مستعفی ہو جاؤں۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ محمد یونس نے طلبہ رہنماؤں، فوج اور صدر کی درخواست پر عبوری حکومت کی قیادت قبول کی تھی۔ انہوں نے احتجاج کی قیادت کرنے والے ’’بہادر طلباء‘‘کی تعریف کی ہے اور 5 اگست کو وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفیٰ کا موازنہ ’’دوسرے یوم فتح‘‘سے کیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے اس’’دوسرے یوم فتح ‘‘ کو 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی سے جوڑ کر اپنی باتیں کہی ہیں ۔ انہوں نے سب سے زیادہ اس بات پر زور دیا ہے کہ پرسکون رہیں اور تشدد سے گریز کریں۔ انہوں نے طلباء، سیاسی جماعتوں اور عوام سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے ملک میں ترقی اور خوشحالی کے امکانات پر زور دیا ہے۔ یونس کا کہنا ہے کہ ، ’’تشدد ہمارا دشمن ہے۔ ہمیں مزید تشدد میں ملوث نہ ہونے دیں۔ پرسکون رہیں اور اپنے ملک کی تعمیر کے لیے تیار رہیں۔‘‘ بنگلہ دیش کے نئے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کے اس پیغام کی ہر سطح پر ستائش ہو رہی ہے۔
اِدھر بنگلہ دیش کے لوگوں نے بھی نوبل انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس کی قیادت میں نئی عبوری حکومت کی تشکیل کا خیر مقدم کیا ہے۔ لوگوں کو اب پختہ یقین ہے کہ یہ حکومت امن و امان بحال کرے گی، جبر کا خاتمہ کرے گی اور اقتدار کی جمہوری منتقلی کے لیے منصفانہ انتخابات کرائے گی۔ 84 سالہ پروفیسر یونس نے گزشتہ جمعرات کو یونس نے وزیراعظم کے مساوی عہدہ چیف ایڈوائزر کے طور پر حلف اٹھایا۔نوبل انعام یافتہ محمد یونس نے جمعرات کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر حلف اٹھایا۔ حلف برداری کی تقریب دارالحکومت ڈھاکہ میں صدر کی سرکاری رہائش گاہ’’ بنگ بھون‘‘ میں منعقد کی گئی۔ محمد یونس حلف کے لیے ’’بنگ بھون‘‘ پہنچے اور پھر انہوں نے عہدے اور رازداری کا حلف لیا۔ ان کے ساتھ 16 دیگر ساتھیوں نے بھی حلف اٹھایا ہے، جن میں 2 خواتین اور 2 ہندو بھی شامل ہیں۔ ان میں بیلا کی سی ای او سیدہ رضوانہ حسن،خواتین کے حقوق کی کارکن فریدہ اختر،بریگیڈیئر سخاوت حسین ، دائیں بازو کی جماعت حفاظت ِ اسلام کی نائب سربراہ اے ایف ایم خالد حسین، رورل ٹیلی کام کی ٹرسٹی نورجہاں بیگم، آزادی پسند شرمین مرشد، چٹاگا ؤں ہل ٹریکٹس ڈیولپمنٹ بورڈ کے چیئرمین سپردیپ چکما، پروفیسر بدھان رنجن رائے اور سابق سیکرٹری خارجہ توحید حسین کو مشاورتی کونسل کے ارکان میں شامل کیا گیا ہے۔ مشاورتی کونسل میں سیاسی جماعتوں کو نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔
ملک میں عبوری حکومت کی تشکیل کے ساتھ لوگوں کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ دھیرے دھیرے اب سب کچھ معمول پر آجائے گا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر سراج الاسلام چودھری کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت کے فرائض میں سے ایک ہے بلا تاخیر ملک میں نظم و ضبط کو بحال کرنا ہے، جو حسینہ واجد کی حکومت کے زوال کے بعد گزشتہ چند دنوں میں منہدم ہو گیا ہے۔ عبوری حکومت کی حلف برداری کے بعد’’ڈیلی سٹار‘‘ اخبار نے پروفیسر سراج الاسلام چودھری کے حوالے سے کہا،’’دوسرا کام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔‘‘ معروف قانون دان کمال حسین کا کہنا ہے،’’ملک میں جو تبدیلی آئی ہے، سب نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔‘‘
دوسری جانب اِدھر پروفیسرمحمد یونس کے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی ایسا کچھ ہو گیا ،جس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ایک طرف وہ وزارت عظمیٰ کے تخت پر براجمان ہوئے تو دوسری طرف انہیں مغربی بنگال سے یکے با دیگرے 50 سے زائد خطوط موصول ہوئے۔ مغربی بنگال کےلوگوں نے بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین اور وزیر اعظم محمد یونس کو خط لکھ کر ان سے سماج کے تمام طبقات کی حفاظت کو یقینی بنانے کی اپیل کی ہے۔یہ اپیل جس تناظر میں کی گئی ہے، اس سے پوری دنیا واقف ہے۔ درحقیقت پچھلے دنوں ہوئے پر تشدد مظاہرے کی وجہ سے ملک کے حالات خراب ہوگئے ۔قانون و انتظام کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہو گیا ، جس کا ذکر خط میں کرتے ہوئے خطوط میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ بنگلہ دیش کے عوام فیصلہ کریں گے کہ ملک میں کس قسم کی سیاسی اور انتظامی قیادت آئے گی ، ہم اس کی حمایت کریں گے۔ مغربی بنگال کے لوگوں نے اپنے خطوں کے ذریعہ انتظامیہ اور بنگلہ دیش کے عوام سے، خاص طور پر طلباء، جنہوں نے ریزرویشن مخالف اور امتیازی تحریک کے ذریعے یہ تبدیلی لائی ہے، سے اپیل کی ہے کہ وہ ہر بنگلہ دیشی شہری کی حفاظت کو یقینی بنائیں، چاہے ان کی وابستگی کسی بھی مذہب، پیشہ یا سیاست سے کیوں نہیں ہو۔ ان خطوط میں کہا گیا ہےکہ بنگلہ دیش میں جس طرح کی صورتحال ہے اور جو کچھ بھی ہوا، ہمیں اس پر بہت تشویش ہے۔ مغربی بنگال کے لوگوں کے لیے بنگلہ دیش صرف جغرافیائی لحاظ سے پڑوسی ملک نہیں ہے، بلکہ دل میں بھی پڑوسی ہے، کیونکہ ہماری زبان، ثقافت اور تاریخ ایک جیسی ہے۔ خطوط بھیجنے والوں میں فلمساز اپرنا سین، پاویترا سرکار اور سپریم کورٹ کے سابق جج اشوک گنگولی بھی شامل ہیں۔ان خطوط میں بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر مبینہ حملوں پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے ایک کمیونیٹی کی جانب سے دوسری کمیونیٹی کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے واقعات کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ ان معروف شخصیات کا کہنا ہے کہ یہ خط اس لیے لکھا ہے کیونکہ ملک میں افراتفری ہے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو دنیا بھر سے بنگلہ دیشی لوگوں کی جانب سے بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں کالز موصول ہو رہی ہیں۔ ان خطوط کی ایک کاپی کولکتہ میں موجود بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمیشن کو بھی بھیجی گئی ہے۔اسی درمیان عبوری حکومت کا حلف اٹھانے پر مبارکباد دیتے ہوئے پی ایم مودی نےبنگلہ دیش میں جلد از جلد معمولات بحال ہونے اور اقلیتی برادریوں کی سلامتی کی امید ظاہر کی۔ ٹوئٹر پر پوسٹ کرتے ہوئے پی ایم نے یقین دلایا ہے ،’’بھارت امن، سلامتی اور ترقی کے لئے ساتھ ہی دونوں ممالک کے لوگوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے بنگلہ دیش کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘‘