بہار اسمبلی انتخابات : پارٹیوں کی تیاریاں شروع

تاثیر  ۱۴   اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

بہار کی تین اہم سیاسی جماعتوں نے اگلے سال بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے تناظر میں اپنی اپنی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ سیاسی اور سماجی تانے بانے کو مضبوط کرنے کی کوششیں بھی ہو نے لگی ہیں۔اس سلسلے میں ہر ایک جماعت ترجیحی بنیاد پر اپنے اپنےروایتی ووٹوں کو اپنے حق میں مضبوط کرنے کا کام سنجیدگی کے ساتھ کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔آر جے ڈی، جے ڈی یو اور بی جے پی تینوں جماعتوں کی نظر فی الحال اپنے اپنے کو ر ووٹرز پر ہے۔نئے ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بجائے ان کی پہلی ترجیح اپنے روایتی  ووٹوں کو بکھرنے سے بچانا ہے۔ اس دوڑ میں آر جے ڈی ہسب سے آگے ہے۔
  آر جے ڈی کے روایتی ووٹر ز ’’ایم وائی‘‘ یعنی مسلمان اور یادو رہے ہیں۔ آر جے ڈی اپنے اسی سیاسی اور سماجی تانے بانے کی بدولت بہار پر 15 برسوں تک حکومت کر تا رہا ہے۔جب لالو پرساد یادو نے پارٹی کی کمان اپنے بیٹے تیجسوی یادو کو سونپی، تو انہوں نے اس تانے بانے میں تجربے کے طور پر تھوڑی تبدیلی کی اور ’’ بی اےاےپی‘‘  (پس ماندہ ، آدھی آبادی اور غریب)باپ) کی بنیاد پر نئے سماجی تانے بانے تیار کرنے کی کوشش شروع کی۔ مگر پچھلے لوک سبھا انتخابات کے نتائج نےیہ واضح کر دیا کہ تیجسوی یادو کا یہ تجربہ بری طرح سے ناکام ہو گیا۔ یعنی ’’باپ‘‘ کا مفروضہ کام نہیں آیا ۔  23 سیٹوں پر لڑنے کے بعد انڈیا بلاک کی سرکردہ سیاسی جماعت آر جے ڈی محض 4 سیٹوں میں سمٹ گئی ۔ اپنی بیٹی روہنی آچاریہ کو بھی لالو پرساد اوررابڑی دیوی کی مہم سارن لوک سبھا سیٹ سے نہیں جِتا سکی۔ انتخابی نتائج کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ ’’ایم وائی‘‘ کا تانا بانا بکھر گیا ہے اور اپنے والد کی سیاسی وراثت کے ہیلی کاپٹر پر’’ وی آئی پی‘‘ کے مکھیا مکیش سہنی کے ساتھ تکبر کے آسمان پر اڑ رہے تیجسوی یادو سیدھے زمین پر آگئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر اپنے ’’ایم وائی ‘‘ کو چھوڑ کر بھاگ رہے ’’ایم‘‘ یعنی مسلمان ووٹرس کو گھیر گھار کر اپنے خیمے میں رکھنے کے مقصد سے آر جے ڈی نے مسلم سماج کی طرف اپنی توجہ بڑھا نی شروع کر دی ہے۔اور ایسا کرنا شاید ان کی مجبوری بھی ہے۔
سیوان کے مضبوط ایم پی رہ چکے مرحوم شہاب الدین نے آر جے ڈی کے لئے جتنا کچھ کیا تھا، اسے خود لالو پرساد یادو کبھی بھول نہیں سکتے ہیں۔ مرحوم شہاب الدین ان چند لوگوں میں شامل تھے، جنھوں نے برے وقت میں آر جے ڈی کو اس کے پاؤں پر کھڑا کیا تھا۔ مگر ان کے انتقال کے بعد آر جے ڈی نے ان کی اہلیہ حنا شہاب کو کمزور خاتون سمجھ کر کتنی دوری بنا لی، یہ حقیقت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ دو بار لوک سبھا الیکشن ہارنے کے بعد حنا شہاب کی خواہش تھی کہ انھیں راجیہ سبھا بھیجا جائے، لیکن لالو پرساد یادو نے ان کی بات کو نظر انداز کر دیا۔ بعد میں آر جے ڈی کے ’’ایم‘‘ کوٹہ سےاشفاق کریم کو راجیہ سبھا بھیجا گیا۔یہی وہ صورتحال تھی، جس کی وجہ سے حنا شہاب نے غیر اعلانیہ طور پر آر جے ڈی سے دوری بنا لی۔2024 کے لوک سبھا انتخابات میںحنا شہاب آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں تھیں۔وہ خود الیکشن تو نہیں جیت سکیں، لیکن آر جےڈی کے امیدوار اودھ بہاری چودھری کو تیسری پوزیشن پر دھکیلنے میں ضرور کامیاب ہو گئیں۔ اس شکست کے بعد ایک بار پھر آر جے ڈی کو حنا شہاب کی یاد ستانے لگی ہے۔ تمام شکوے گلے کو بھلاکرانھیں منانے اور آر جے ڈی میں لانے کی کوشش ہونے لگی ہے۔
اِدھر پرشانت کشور کی مجوزہ ’’جن سورج پارٹی ‘‘ کی جانب پڑھے لکھے اور با شعور مسلم لیڈروں کے جھکاؤ کو دیکھ کر بھی ان دنوں لالو پرساد یادو اور تیجسوی یادو کی دھڑ کنیں تیز ہو گئی ہیں۔چنانچہ سننے میں آیا ہے کہ مسلمانوں کو خود سے سٹائے رکھنے کے لئے اب آر جے ڈی   کے لوگ اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی کے بھی قریب ہونے لگے ہیں۔ آر جے ڈی سیمانچل میں اسدالدین اویسی کی گرفت سے واقف ہے۔  2020 کے اسمبلی انتخابات میں اویسی کی پارٹی نے سیمانچل میں پانچ سیٹیں جیتی تھیں۔ لوک سبھا انتخابات میں بھی کشن گنج سیٹ سے اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار اختر الایمان 3 لاکھ سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن پر تھے۔جن سوراج نے بھی کشن گنج میں اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے۔موجودہ صورتحال آر جے ڈی  اور اے آئی ایم آئی ایم دونوں کے لئے بہتر نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی طاقت بننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔مانا جا رہا ہے کہ اگر اے آئی ایم آئی ایم  اورآر جے ڈی کے ساتھ سمجھوتہ ہوجاتا ہے تو پوروانچل میں ایک بار پھر ’’ایم‘‘ اور ’’وائی‘‘ ایک ساتھ آسکتے ہیں۔
  نتیش کمار کے این ڈی اے چھوڑنے کے بعد، بی جے پی نے لو کش ( کرمی اورکشواہا)کے ووٹوں پر توجہ مرکوز کی تھی۔ اسی سلسلے میں پارٹی نے کشواہا برادری سے تعلق رکھنے والے سمراٹ چودھری کو اپنا ریاستی صدر بنایا تھا۔  لیکن بی جے پی کو فائدہ کی بجائے  2019 کے بر عکس 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں 5 سیٹوں کا نقصان ہو گیا۔چنانچہ بی جے پی نے اب’’ لو کش ‘‘ کے سماجی تانے بانے کے ووٹوں کا لالچ ترک کر کے اب صرف اپنے روایتی ووٹوں پر توجہ مرکوز کر دیاہے۔ ویشیہ سماج سے تعلق رکھنے والے دلیپ جیسوال کو پارٹی کا ریاستی صدر بنایا جانا، اسی سمت میں اٹھائے گئے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔دوسری جانب بہار کے وزیر اعلیٰ اور جے ڈی یو کے قومی صدر نتیش کمار بھی اب سمجھ گئے ہیں کہ اپنا بیس ووٹ چھوڑنا درست نہیں ہے۔  اگرچہ انہوں نے باضابطہ طور پر اپنی برادری کرمی سے تعلق رکھنے والے سابق آئی اے ایس منیش ورما کو پارٹی سے متعلق ہر ایک فیصلے میں شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔ پہلے وجے چودھری اور اشوک چودھری نتیش کمار کے ساتھ سائے کی طرح رہتے تھے۔ اب وہ مقام  منیش ورما کو دے دیا گیا ہے۔ منیش ورما پارٹی کارکنوں اور لیڈروں سے بھی ملاقات کررہے ہیں۔ نتیش کمار کے بعد وہی حکومت اور پارٹی کے درمیان ایک بڑے پل کا کام کر رہے ہیں۔پہلے یہ کام آر سی پی سنگھ کے ذمے تھا۔الغرض ریاست کی تینوں اہم پارٹیاں اپنے اپنے ڈھنگ سے چناوی گوٹی سیٹ کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔اپنے مشن میں کس کو کتنی کامیابی ملتی ہے، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔
 *********