تاثیر ۲۲ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
انسان کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے حقوق رکھے ہیں۔ ایک تو وہ حقوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے اوپر ہیں جیسے ایمان لانا، نماز پڑھنا، روز درکھنا، حج وزکوۃ ادا کرناوغیرہ اور دوسرے وہ حقوق اور ذمہ داریاں ہیں جو ایک بندے کے دوسرے بندے پر عائد ہوتے ہیں۔پہلے کو حقوق اللہ اور دوسرے کو حقوق العباد کہا جاتا ہے۔ ان دونوں حقوق میں حقوق العباد کو جو مقام اور اہمیت حاصل ہے ، وہ کسی باشعور مسلمان پر پوشیدہ نہیں ہے۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر حقوق العباد کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں کوتاہی برتنے کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا موجب و سبب قرار دیا گیا ہے۔
حقوق العباد ایک بندے پر اللہ کی طرف سے عائد کر دہ دوسرے بندے کے جو حقوق ہیں ، اُن کی ادائیگی کا نام ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد ایک ہی تصویر کے دورخ ہیں۔ دونوں حقوق ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایک کی ادائیگی سے دوسرا حق بھی ادا ہوتا ہے، کیوں کہ بندوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اللہ کا حکم مان کر ہم حقوق اللہ و حقوق العباد کا خیال کیوں نہیں رکھتے؟
جب کہ کامل مسلمان بننے اور اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق بننے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کے حقوق کو صحیح طور پر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کیے جائیں۔ بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کی جائے ورنہ اندیشہ ہے کہ نماز ، روزہ و دیگر فرائض کی پابندی کے باوجو درحمت و مغفرت الٰہی سے محرومی ہمارامقدر بن جائے۔ اس ایک حدیث شاہد ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا ، ’’تم جانتے ہو ، مفلس کون ہے ؟‘‘ صحابہ نے جواب دیا: ’’اللہ کے رسول ! مفلس وہ شخص ہے، جس کے پاس درہم و دینار اور مال و دولت نہ ہو۔‘‘ آپ نے فرمایا،’’ نہیں ! بلکہ میری امت کا مفلس وہ شخص ہو گا جو قیامت کے دن بارگاہ الہٰی میں حاضر ہوگا، دُنیا میں وہ نماز پڑھتارہاہو گا، روزے رکھتار ہا ہو گا، زکوۃ ادا کرتارہا ہو گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ، کسی پر تہمت لگائی ہو گی ، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا پیٹا ہو گا، تو یہ سب مظلومین اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں اس کے خلاف استغاثہ (فریاد) دائر کریں گے۔ چنانچہ اللہ کے حکم سے اس کی نیکیاں ان میں تقسیم کر دی جائیں گی ، یہاں تک کہ اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی، لیکن اس کے ذمہ ابھی بھی دوسروں کے حقوق باقی ہوں گے ، تو مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔پھر سوائے جہنم کا ایندھن بننے کے اس کے لیے کوئی چارہ کار نہیں رہ جائے گا یعنی وہ جہنم میں ڈال دیا جائیگا۔‘‘
مذکورہ حدیث رسول کریم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نماز روزے اور دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی کتنی ضروری ہے۔ ان میں کوتاہی سے ہماری عبادتیں بھی ضائع ہو سکتی ہیں، اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بندوں کے حقوق کو بھی سمجھیں اور پھر انہیں صحیح طریقے سے ادا کریں۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں یہ رویہ عام ہے کی کچھ لوگ حقوق اللہ کا تو اہتمام کرتے ہیں ( یعنی نماز ، روزے کے پابند ہیں ) مگر وہ معاملات زندگی میں کھوئے ہیں ، اخلاق وکردار کی پستی میں مبتلا ہیں اور امانت و دیانت سے خالی ہیں ۔اسی طرح کچھ وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ پر تو باقاعد ہ دھیان نہیں دیتے ( یعنی نماز روزے وغیر ہ عبادات کا تو اہتمام نہیں کرتے) لیکن اخلاق وکردار کے اچھے ، معاملات کے کھرے اور امانت و دیانت جیسی خوبیوں سے بھرے ہوتےہیں۔ جب کہ اسلام کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر ہم کامل مسلمان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی مکمل توجہ دینی ہو گی۔
حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب ، ہر ذات و نسل ، ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آ جاتے ہیں۔ لہٰذا ،اگر ہم اپنے عزیزوں ، دوست و احباب اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے بھی حقوق ادا کریں ، غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے ، والدین اگر اولاد کے لئے زندگی کی ہر آسائش (آرام) ترک کر دیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کوئی کمی نہ کریں۔ جن گناہوں کا تعلق حقوق اللہ سے ہے جیسے نماز ، روزہ، زکوۃ اور حج کی ادائیگی میں کو تاہی ، اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ ان گناہوں کو معاف فرمادے گا (انشاء اللہ )۔ لیکن جن گناہوں کا تعلق حقوق العباد ( بندوں کے حقوق ) سے ہے مثلاً کسی شخص کا سامان چرایا، یاکسی شخص کو کوئی تکلیف دی یا کسی شخص کا حق مارا، کسی کی زمین جائداد پر ناجائز قبضہ کیاتو قرآن وحدیث کی روشنی میں اکثر علما وفقہا اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا ہمارے اوپر حق ہے ، اس کا حق ادا کریں یا اس سے حق معاف کروائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف تو بہ واستغفار کے لیے رجوع کریں۔
لہٰذا ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی کو اپنی اہم ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہمیں ہمیں ہمیشہ اپنے معاملات کا جائزہ لیتے رہنا ۔ہمیں ہمیشہ الرٹ رہنا چاہئے کہ کہیں جانے یا انجانے ہماری طرف سے حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کمی تو نہیں ہو رہی ہے؟ہم کسی کا حق تو نہیں مار رہے ہیں؟ کسی کا قرض لیکر اسے بھولنے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں ؟ ہمیں غیر جانب دارانہ طور پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ، اپنے پچھلے معاملات اور موجودہ حالات دونوں کی جانچ پڑتال کرنی چاہئے۔ خرید و فروخت میں، تجارت میں آپس کی تجارتی شرکت میں ، اگر کوئی حق کسی کا ہمارے ذمہ باقی رہ گیا تو اس کو فور اََصاف کر لینا چاہیے یا ہمارے ذمہ کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہئے۔اس گمان میں قطعی نہیں رہنا چاہیے کہ اولا دادا کرے گی۔ جائیداد ہے تو اپنے شرکت داروں کو شریعت کے مقررہ طریقے کے مطابق ان کا حق دینا چاہیے۔ اسی طرح اگر کسی پر تہمت لگائی ہے، کسی کو پریشان کیا ہے ، کسی کی غیبت کی ہے، کسی کی دل آزاری کی ہے،کسی کو کسی طرح سے نقصان پہنچایا ہے تو اس کو اس کی زندگی میں سب سے اہم کام سمجھ کر معافی تلافی کر لینی چاہئے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُمتِ مسلمہ کو راہ استقامت عطا فرمائے اور حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی کماحقہ توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
************************