تاثیر ۲ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
اس وقت امت مسلمہ ہرچہار جانب سے ابتلاء و آزمائش کے دور سے گزر رہی ہے۔نظریاتی اور فکری طورپر امت کو کئی طرح سےہراساں کرنےکی کوششیںکی جارہی ہیں۔ جھوٹے راشٹرواد کے نام نہاد علمبردار مسلمانوں کو ان کے انسانی اور آئینی حقوق سلب کر کے انھیں حاشئے پر دھکیل د یناچاہتےہیں۔بھارت جیسےجمہوری ملک میں اپنےآئینی حقوق کے لئے اٹھنے والی آوازاوں کودبانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں کے مقامات مقدسہ پر ان کی بری نظریں گڑی ہوئی ہیں۔ ہجومی دہشت گردی کی واردات میں بھلے ہی ان دنوں کچھ کمی آئی ہے ، لیکن سادہ لوح مسلم بچیوں کو عشق ومحبت کے پرفریب وعدوں کےذریعے اعلانیہ طور پر مرتد بنانے کی مہم ابھی بھی جاری ہے۔ ایسے میں ایک کمزور دل اور ناقص ایمان والا انسان ہمت ہار بیٹھے، یہ بعید از قیاس نہیں ہے۔حالاں کہ ایک بندۂ مومن کا سب سے قیمتی ورثہ اس کا ایمان اور عقیدہ ہے۔
رسول اعظم ﷺ کی مکی زندگی کس قدر صبرآزما تھی، یہ کون نہیں جانتا ہے ؟ اس کے باوجود آپ ﷺ نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو گذشتہ امتوں پر آنےوالی ابتلاءومصائب کا ذکر فرماکرانھیں صبرورضاکی تلقین فرما تے رہے۔موجودہ حالات میں مسلمان ذرا ذرا سی تکلیف، مصیبت اور غیروں کی جانب سےپائےجانےوالےخدشات کےسبب حواس باختہ ہوکر غیروں کو خوش کرنےمیں ایک دوسرےپر سبقت لے جانے لگتےہیں۔حالانکہ انھیں معلوم ہےکہ کفارومشرکین ان سےاس وقت تک راضی نہیں ہوں گے،جب تک وہ اپنےدین ومذہب کو ترک نہ کردیں۔ جیساکہ قرآن نےکہاہے: ترجمہ:”اور یہود و نصاریٰ آپ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے حتی کہ آپ ان کی کی پیروی کریں۔“(البقرہ۔آیت: 120)۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہےکہ جہاں حق ہوتاہے وہاں آزمائشیں مقدر ہوتی ہیں۔اسلام ایک سچا اور آفاقی مذہب ہے۔ اسےمٹانےکی کوئی بھی کوشش ان شاء اللہ کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ یہ مسلمان ہی ہیں، جوآزمائشوں اور مصیبتوں میں ثابت قدم رہ کر رب کی نصرت ومدد پاتےہیں اور پھر کامیاب وکامران ہوتےہیں۔
آزمائش کےتعلق سےاللہ رب العزت نےارشاد فرمایاہے: ترجمہ:”کیا لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ان کو یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا۔“(العنکبوت۔آیت: 2)۔ اس آیت پاک میں محض قول ایمان ہی کو کافی نہیں کہاگیا بلکہ انھیں آزمانےکی بات بھی کہی گئی ہے ۔ اس سےاگلی آیت میں امم سابقہ کو آزمائےجانےاور سچےوجھوٹےکو ظاہر کرنےکی بات ارشاد فرمائی گئی ہے۔سورہ بقرہ کی آیت 214 میں آزمائش اور نصرت الہی کاذکر کرتےہوئے رب تبارک و تعالیٰ فرماتاہے:ترجمہ ’’کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی تم پر ایسی آزمائشیں نہیں آئیں، جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں ،ان پر آفتیں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ (اس قدر) جھنجھوڑ دیے گئے کہ (اس وقت کے) رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ سنو ! بیشک اللہ کی مدد عنقریب آئے گی۔(البقرہ۔آیت:214)۔
آزمائش کےتعلق سےحضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ پوچھا یارسول اللہ ! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت مصیبت کس پر آتی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : انبیا پر ،پھر جو ان کے قریب ہوں ،پھر جو ان کے قریب ہوں ،سو ہر شخص اپنے دین کے اعتبار سے مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے ،جو شخص اپنے دین میں سخت ہوتا ہے اس پر سخت مصیبت آتی ہے اور جو شخص اپنے دین میں نرم ہوتا ہےاس پر اپنے دین کے اعتبار سے مصیبت آتی ہے۔بندہ مسلسل مصائب میں مبتلا ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔‘‘ یعنی یہ طے ہے کہ حسب حال بندےکو آزمائشوں سے گزرنا تو پڑے گا ہی ۔ کبھی فرد آزمائش میں مبتلاہوتاہےتو کبھی پوری جماعت آزمائش میں گھرجاتی ہے۔اگر آزمائش کی اس گھڑی میں ثابت قدم رہتےہوئے اپنےوجود کی بقااور قیام کےلیےجدوجہد نہیں کی جائے آزمائش کی آندھیاںخس و خاشاک کی طرح انسان کو بہالےجائےگی۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ امت پر جب جب ایسی آزمائش کی گھڑیاں آئی ہیں، امت نےڈٹ کر ان کامقابلہ کیا ہےاور عقل وفہم سے کام لیتے ہوئے ان کا ازالہ کیا ہے۔کئی طرح کے طوفان مسلمانوں کی ہوا اکھاڑنےکےلیےکمر بستہ ہوئےلیکن، مسلمانوں کی ثابت قدمی نے انھیں ہر موڑ پر پسپا وشکستہ خوردہ کردیا۔ یقین جانیںباشعور قومیں وقت رہتےثابت قدمی کےساتھ عملی جدوجہد کرکےفلاح و نجات کی راہیں ہموار کرتی ہیں اوراپنےہدف کوحاصل کرکےکامیاب و کامران ہوتی ہیں۔ امریکہ نے جب جاپان میں بم گراکر اسےتہس نہس کر دیا تھا، اس کی عسکری قوت کو تباہ کردیاتھا،تب جاپان نے غوروفکر اور صبر و تحمل سے کام لیا۔متحد اور منظم ہو کر تعلیمی پالیسی پر جم کر کام کیا۔ اور مختصر وقت میں اس نے اس قدر کامیابی حاصل کی کہ جاپان کی مصنوعات کو امریکہ جیسےملک میں قدر کی نگاہ سےدیکھاجانےلگا۔چنانچہ بے جا رسم و رواج،آپسی اختلافات اور نِت نئی بدعات سےاوپر اٹھ کر محض مفاداتِ امت کے لئے منصوبہ بند طریقہ سے جدوجہد کر نے کی دیر ہے۔ روشن صبح ہمارا استقبال کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہے !