تاثیر ۵ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
ریزرویشن کے معاملے میں ہو رہے پرتشدد مظاہروں کے درمیان پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی پی ایم شیخ حسینہ نے کل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ۔ ملک بھر میں ریزرویشن کے معاملے پر جاری تنازعہ اب کافی گرم ہو گیا ہے۔یونیورسٹی اور کالج کے طلباء کے مظاہروں نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر بے اطمینانی، خونریزی اور افراتفری پھیلائی ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے مظاہروں کو روکنے کی کوشش کی لیکن لوگ پیچھے نہیں ہٹے۔ احتجاج اور فسادات کاسلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ ان فسادات کی وجہ سے اب تک کم سے کم 300 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایسے میں شیخ حسینہ پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ اسی دباؤ کے باعث بالآخر شیخ ان کو استعفیٰ دینا پڑا۔ ساتھ ہی جان کی حفاظت کے لئے اپنا ملک کو چھوڑ کر بھارت میں آکر پناہ لینی پڑی ۔ ملک چھوڑتے ہی مظاہرین کی بڑی تعداد نے ان کی رہائش گاہ پر بھی حملہ کر دیا اور بری طرح سے لوٹ پاٹ مچائی۔ ایک میڈیارپورٹ کے مطابق ان کے ہیلی کاپٹر نے بھارتی ریاست تری پورہ کے دارالحکومت اگرتلہ میں لینڈنگ کی ہے۔ تریپورہ کی سرحد بنگلہ دیش کے ساتھ ملتی ہے۔ ایسے میں تریپورہ اوربنگلہ دیش سرحد پر سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
شیخ حسینہ 2009 سے مسلسل بنگلہ دیش کی وزیر اعظم تھیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ گزشتہ سولہ سالوں میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کو غربت سے نکالا ہے۔ بنگلہ دیش نے جو ترقی کی ہے وہ شیخ حسینہ کی وجہ سے ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کے بڑھتے ہوئے آمرانہ دور کے باوجود بنگلہ دیش ترقی کی راہ پر گامزن رہا۔ لیکن ان کی پوزیشن اتنی کمزور کبھی نہیں تھی جتنی اب ہے۔ شیخ حسینہ کو ایک مضبوط لیڈر مانا جاتا ہے۔وہ ملک کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی ہیں۔ شیخ حسینہ اپنی سیاسی زندگی کے دوران کئی طرح کے بحران سے بچتی رہی ہیں۔شیخ حسینہ کی حکومت اپنے دور میں ملک کی سرحدی سکیورٹی فورسز کی پرتشدد بغاوت سے بھی بچ گئی ہے۔ اس میں 57 فوجی اہلکار مارے گئے تھے۔ وہ تین متنازعہ عام انتخابات جیت کر مسلسل تین ٹرم سے ملک کی وزات عظمیٰ سنبھال رہی تھیں۔انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی وجہ سے ان انتخابات کو عالمی برادری کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ساتھ ہی بارہا اپوزیشن جماعتوں کے زبردست مظاہروں کا سامنا بھی کرنا پڑا ، لیکن ملک بھر میں طلبہ کے احتجاج سے شروع ہونے والا یہ موجودہ بحران ان کی سیاسی زندگی کا مشکل ترین چیلنج ثابت ہوا۔ طلبہ کے مظاہرے میں پورا ملک لپیٹ میں آگیا اور اپوزیشن جماعتیں طلبہ کے پیچھے متحد ہوگئیں۔
قابل ذکر ہے کہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے پچھلے دنوں سول سزوسز میں متنازع کوٹہ سسٹم ختم کر کے طلبہ کا بنیادی مطالبہ پورا کر دیاتھا، لیکن عدم اطمینان ختم نہ ہوا۔ ان مظاہروں میں 100 سے زائد طالب علم مارے جا چکے ہیں۔ جب کہ حکومت کے خلاف گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی عوامی تحریک کے دوران بڑے پیمانے پر تشدد ہوا تھا اور بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کے لئے شیخ حسینہ حکومت کی عوام سے ہوئی بتدریج ہوئی لا تعلقی کا نتیجہ ہے۔ مطلق العنان حکومت نے پریس کی آزادی پر پہرہ بٹھا دیا۔اس کی وجہ سے ملک کاپریس فریڈم انڈیکس روس سے بھی کم ہو گیا۔شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی نے آزادی کی جدوجہد کے جذبے کو خوب سیاسی اڑان دی۔ شہریوں کو سال بہ سال ووٹ ڈالنے کے بنیادی انسانی حق سے بھی محروم کیا۔ان کی حکومت نے شعوری طور پراپنے آمرانہ رویہ سے معاشرے کے ایک بڑے حصے کو ناراض کیا۔ کہنے کے لئے وہ پورے ملک کی وزیر اعظم تھیں ، لیکن ان کی حکومت صرف ایک گروپ سے وابستہ لوگوں کو ہی عملی طور پر ا پنا شہری تسلیم کرتی تھی۔
بنگلہ دیش میں مظاہرے کا سلسلہ سول سروسز میں کوٹے کے خلاف شروع ہوا ۔ 15 جولائی کو مظاہروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس کے بعد تمام یونیورسٹیاں، کالج اور سیکنڈری اسکول غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیے گئے۔ 16 جولائی کو مزید مہلک جھڑپیں شروع ہوئیں اور شیخ حسینہ نے بعد ازاں بنگلہ دیش سے خطاب کیا اور ہلاکتوں کی عدالتی تحقیقات کا اعلان کیا۔ تاہم اس کے بعد بھی تشدد میں کمی نہیں آئی۔ بنگلہ دیشی حکومت نے 20 جولائی کو ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا اور فوج کو تعینات کر دیا۔اس کے بعد 23 جولائی کو حکومت نے سرکلر جاری کرتے ہوئے کہا کہ کوٹہ سسٹم میں تبدیلی کی جائے گی، لیکن مظاہرین اس پر راضی نہیں ہوئے۔ اس کے بعد حکومت نے چھاپوں کا سلسلہ تیز کر دیا اور گرفتاریاں شروع کر دیں۔ ادھر اقوام متحدہ کی جانب سے بنگلہ دیشی حکومت سے کہا گیا کہ وہ مظاہرین پر ظلم نہ کرے اور انٹرنیٹ سروس بحال کرے۔ 29 جولائی کے بعد مظاہرین نے اپنے احتجاج میں شدت پیدا کر دی اور پھر نوبت یہاں تک پہنچ گئی۔
بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان کی جانب سے وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد مظاہرین اپنی فتح کا جشن منانے سڑکوں پر نکل آئے۔ بنگلہ دیش سے آنے والی تصاویر میں مظاہرین کو وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ کے اندر دیکھا گیا ہے۔ تصاویر میں مظاہرین کو وزیر اعظم کی سرکاری رہائش ’’گن بھون‘‘ میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرتے نظر آرہے ہیں اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ جب حکومت عوامی مسائل سے کنارہ کش ہو کر چند لوگوں کے فائدے تک اپنی حکومت کے دائرے کو سمیٹ لیتی ہے تو گویا وہ عوام الناس کی ناراضگی کو دعوت دیتی ہے اور عوام کی ناراضگی تو کچھ بھی کر سکتی ہے۔