حد درجہ اعتدال پسند اور مفاہمت کے حامی فلسطینی لیڈر اورحماس کے سینئر رہنما اسماعیل ھنیہ کے جسد خاکی کو قطر کے دارالحکومت دوحہ کے قریب واقع ایک قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ۔اس سے قبل ان کی نماز جنازہ دوحہ کی مسجد امام محمد بن عبدالوہاب میں بھی ادا کی گئی۔ جنازے کی نماز میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شامل ہوئے۔ان کے نماز جنازہ کی ادائیگی کے دوران سوگواروں نے ان کی تصاویر اور فلسطینی پرچم اٹھا رکھے تھے۔اس سے پہلے ان کی نماز جنازہ کل صبح تہران یونیورسٹی کے احاطے میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں ایران کی مشہور سیاسی اور فوجی شخصیات نے شرکت کی۔ فلسطینی رہنما کی نماز جنازہ کے بعد جلوسِ جنازہ تہران یونیورسٹی سے شروع ہوا جو آزادی اسکوائر سے ہوتے ہوئے نواب اسکوائر پر اختتام پذیر ہوا۔ نماز جنازہ میں ایران کے ہزاروں مرد و خواتین نے شرکت کی تھی اور اسرائیل کے بزدلانہ و مجرمانہ حملہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ کی امامت کی۔ ۔آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس حملے پر اسرائیل کو سخت سبق سکھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ایرانی رہبرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ چونکہ اسماعیل ھنیہ کا قتل ایران میں ہوا ہے، اس لیے وہ ان کے خون کا بدلہ لینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ واضح ہو کہ حماس کے رہنما اسماعیل ھنیہ کا قتل نہ صرف ایران کے لیے شرمندگی کا باعث ہے بلکہ یہ اس کی سکیورٹی ایجنسیوں کی صلاحیتوں پر بھی سوالیہ نشان سمجھا جا رہا ہے۔
نماز جنازہ سے قبل ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر غالب نے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ شہید اسماعیل ھنیہ پوری دنیا میں فلسطینی عوام کی آواز اور ایک سچے لیڈر تھے۔ انہوں نے اسماعیل ھنیہ کے قتل کا شدید جواب دینے کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ھنیہ کے قتل کا صحیح وقت اور صحیح مقام پر جواب دیا جائے گا۔ ہمارے مہمان کو ہماری سرزمین پر نشانہ بنا یا گیا۔ واضح ہو کہ اسماعیل ھنیہ کو 31 جولائی، 2024 کو تہران میں قتل کر دیا گیا تھا۔و ہ نئے ایرانی صدرر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے۔ وہ جس عمارت میں ٹھہرے تھے، اس پر اسرائیل نے فضائی حملہ کر دیا تھا۔حماس کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کی شہادت نے دنیا بھر میں رنج و غم کی لہر دوڑادی ہے۔ اس مظلومانہ شہادت کی دنیا بھر میں مذمت کی جارہی ہے۔
تہران میں نماز جنازہ کے بعد اسماعیل ھنیہ کی میت کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں واقع ان کے گھر کے لئے روانہ کر دیا گیا۔ اسماعیل ھنیہ کے جسد خاکی کو قطر میں واقع جب ان کے گھر لے جایا گیا تو وہاں پر بڑے جذباتی مناظر دیکھے گئے۔ اس موقع پر اہلیہ نے اسماعیل ھنیہ کو بہادر اور شہید کہا۔ انہوں نے ھنیہ کو فلسطینی عوام کا ہیرو قرار دیا۔ اس دوران افراد خاندان اور حماس کے ارکان بھی موجود تھے۔اس موقع پر اسماعیل ھنیہ کی بیٹی خولہ اور بہو ایناس نے بھی شدید ردِعمل جاری کرتے ہوئے ایک ایسا ویڈیو جاری کیا ہے ،جس کے دل خراش پیغام نے لوگوں کو اشک بار کردیا ہے۔خولہ نے کہا ہے کہ والد کی شہادت پر ہمیں فخر ہے۔ اسرائیلی حکومت کی یہ سوچ بالکل بے بنیاد ہے کہ اسماعیل ھنیہ کو شہید کرنے سے سکون مل جائے گا، جشن منانے کا موقع ہاتھ آئے گا۔ خدا کی قسم! میرے والد کا خون حشر تک قاتلوں کاپیچھا کرے گا اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچاکر دم لے گا۔ اللہ نے چاہا تو اسماعیل ھنیہ کی شہادت سرزمینِ مقدس کی فتح پر منتج ہوگی۔اپنے پیغام میں اسماعیل ھنیہ کی بہو ایناس نے کہا کہ ہم ہر حال میں اللہ کی رضا پر خوش ہیں، راضی ہیں۔ تقدیر پر ہمارا ایمان ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم ایک ایسی ہستی کے جانے پر اظہارِ افسوس کر رہی ہیں، جس کے حُسنِ عمل سے زمین آسمان بھر جاتے ہیں۔ایناس نے انتہائی دل گیر لہجے میں کہا کہ ہمارا ایمان ہے کہ دنیا فانی ہے اور اسماعیل ھنیہ سے ہماری ملاقات جنت میں ہوگی۔
قابل ذکر ہے کہ ھنیہ 1980 کی دہائی میں حماس میں شامل ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے حماس کے ایک سینئر اور باوقار رہنما بن گئے۔ اسماعیل ھنیہ 29 جنوری 1962 کو غزہ کی پٹی کے شاتی مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم ، مشرق وسطیٰ میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے چلائی جانے والی تنظیم ’’انروا ‘‘کے زیر انتظام اسکولوں اور پھر 1981 میںغزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں ہوئی، جہاں وہ عربی ادب کے طالب علم تھے۔ انہوں نے حماس کے ساتھ تعلق استوار کئے۔اسماعیل ھنیہ حماس کی سیاست میں ایک اہم مقام رکھتے تھے۔ ان کے چلے جانے سے حماس کا بہت پڑا نقصان ہے۔ 1988 میں جب اسلامی تنظیم حماس کی بنیاد رکھی گئی تو اسماعیل ھنیہ اس بانی ارکان میں سے ایک تھے۔
1988 میں جب اسلامی تنظیم حماس کی بنیاد رکھی گئی۔اس کے مقاصد اسرائیلی قبضے کی مخالفت اور بے گھر فلسطینیوں کی مدد کرنا تھے۔ اسماعیل ھنیہ اس کے نوجوان بانی ارکان میں سے ایک تھے۔ وہ گروپ کے روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین کے بہت قریب ہو گئے۔ 1988 میں، ھنیہ کو اسرائیلی حکام نے حراست میں لیا اور ابتدائی انتفادہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے چھ ماہ تک قید رکھا، جو کہ اسرائیلی قبضے کے خلاف بغاوت تھی۔انہیں 1989 میں دوبارہ حراست میں لیا گیا اور 1992 تک وہاں رکھا گیا اس کے بعد ھنیہ کے علاوہ تقریباً 400 دیگر اسلام پسندوں کو اسرائیل نے جنوبی لبنان جلاوطن کر دیا۔ 1993 میں، ھنیہ اوسلو معاہدے کے بعد غزہ واپس چلے گئے۔ واپسی پر انہیں اسلامی یونیورسٹی کا ڈین مقرر کیا گیا ۔ 1997 میں حماس کے رہنما شیخ احمد یاسین کے معاون بنے۔اور پھر اپنے اخلاق ، کردار ، بہادری ، اعتدال پسندی،صلح روی اور فہم و فراست کی بنا پر آگے بڑھتے رہے۔ دوسری طرف وہ اسرائیل کی آنکھوں میں کھٹکتے بھی رہے۔اسی دوران ان پر جان لیوا حملے بھی ہوتے رہے۔ اسی درمیان16 نومبر 2023 کو اپنے ایک پریس ریلیز میں، اسرائیل کی دفاعی افواج نے اعلان کیا کہ غزہ میں ھنیہ کی رہائش گاہ پر اسرائیلی جنگی طیاروں نے حملہ کیاہے۔ 10 اپریل، 2024 کوھنیہ کے تین بیٹے حازم، عامر اور محمد اس وقت شہید ہو گئے، جب ایک اسرائیلی فضائی حملہ نے ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اس سے چند روز قبل ہوئے حملے میں اسماعیل ھنیہ نے اپنے چار نواسے، تین لڑکیاں اور ایک لڑکا بھی کھو دیا تھا اور 31 جولائی، 2024 کو انھوں نے خود شہادت کا جام پی لیا۔ عالمی سیاست کے ماہرین مانتے ہیں کہ اسماعیل ھنیہ کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی۔ ان شاء اللہ فلسطین ایک بار پھر امن کا گہوارہ بنے گا۔
***********