تاثیر ۸ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
متنازعہ وقف ترمیمی بل کل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ کانگریس اور ایس پی سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کی شدید مخالفت کی ۔اس ہنگامے کے درمیان حکومت نے اس بل کی حمایت میں اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کے ذریعے وقف بورڈ کو دیے گئے لامحدود اختیارات کو کنٹرول کیا جائے گا اور اس کا انتظام بہتر اور شفاف طریقے سے کیا جائے گا۔بل کے خلاف جب ہنگامہ نہیں رکا تو آخر کار حکومت کو اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کو بھیجنے کی سفارش کرنیپڑی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد وقف املاک کے تحفظ اور اس کی دیکھ بھال کے لیے وقف ایکٹ 1954 نافذ کیا گیا تھا۔ 1995 میں اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ اس کے بعد 2013 میں بھی اس ایکٹ میں کچھ اور ترامیم کی گئیں۔ ہندوستانی وقف اثاثہ جات کے انتظامی نظام کے مطابق، ملک میں کل 3,56,047 وقف املاک ہیں۔ ان میں سے غیر منقولہ جائیدادوں کی کل تعداد 8,72,324 اور منقولہ جائیدادوں کی کل تعداد 16,713 ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے یہ بحث چل رہی تھی کہ حکومت وقف ایکٹ میں ترمیم سے متعلق بل کبھی بھی پارلیمنٹ میں پیش کر سکتی ہے۔ مرکزی اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے 8 اگست کو وقف (ترمیمی) بل لوک سبھا میں پیش کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ترمیمی بل کے ذریعہ بہت ساری ایسی تبدیلیوں کا راستہ ہموار کرنے کوشش کی گئی ہے، جو در اصل وقف کے اغراض و مقاصد کی نفی کرتی ہیں۔اس بل کو اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ ماہرین بھی وقف ایکٹ 1954 پر حملہ تصور کرتے ہیں۔
متعدد ترمیموں کے ساتھ اس بل میں یہ تجویز بھی شامل کہ سنٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں کم از
کم دو خواتین ہونی چاہئیں۔ اس بل میں بوہرہ اور آغاخانی برادریوں کے لیے علیحدہ اوقاف بورڈزکے قیام کا بندوبست کیا گیا ہے۔بل میں مسلم کمیونٹیز میں شیعہ، سنی، بوہرہ، آغاخانی اور دیگر پسماندہ طبقات کو نمائندگی دینے کی بات کہی گئی ہے۔ فی الحال وقف بورڈ میں کسی غیر مسلم کو چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او)کے طور پر تعینات نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اب بل کی شق 15 کے سیکشن 23 میں ترمیم کی تجویز ہے۔ سیکشن 2 3 سی ای او کی تقرری، اس کے عہدے کی مدت اور سروس کی دیگر شرائط سے متعلق ہے۔ ایک انتظام کیا گیا ہے کہ سی ای او ریاستی حکومت کے جوائنٹ سکریٹری کے عہدے سے نیچے نہیں ہوگا اور اس کے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے کی شرط کو بھی ختم کرد ینے کا انتظام کیا گیا ہے۔
نئے بل کے مطابق یونین وقف کونسل اب ایک مرکزی وزیر، تین ارکان پارلیمنٹ، مسلم تنظیموں کے تین نمائندوں اور تین مسلم ماہرین قانون پر مشتمل ہوگی۔ اس میں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے دو سابق جج، چار قومی شہرت یافتہ افراد اور مرکزی حکومت کے سینئر افسران بھی شامل ہوں گے۔ ثالث کے طور پر کلکٹر کے کردار کے حوالے سے نئے بل میں ایک اہم تبدیلی کی گئی ہے۔ اب ضلع کلکٹر کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہوگا کہ کوئی جائیداد وقف ہے یا سرکاری۔ متعلقہ سیکشن بتاتا ہے کہ اس ایکٹ کے نافذ ہونے سے پہلے یا بعد میں وقف املاک کے طور پر شناخت یا اعلان
کردہ کسی بھی سرکاری جائیداد کو وقف جائیداد نہیں سمجھا جائے گا۔
اگر کبھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا ایسی کوئی جائیداد وقف ملکیت ہے یا سرکاری ملکیت، تو ا یسے میں معاملے کو مقامی کلکٹر دیکھیں گے۔ کلکٹر تحقیقات کریں گے اور فیصلہ کریں گے کہ یہ جائیداد سرکاری ملکیت ہے یا نہیں۔ وہ اپنی رپورٹ ریاستی حکومت کو پیش کریں گے۔ ایک ذیلی دفعہ یہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ ایسی جائیداد کو اس وقت تک وقف املاک نہیں سمجھا جائے گا جب تک کلکٹر اپنی رپورٹ پیش نہیں کرے۔ موجودہ قانون کے مطابق یہ فیصلہ وقف ٹریبونل کرتا ہے۔ وقف املاک کے سروے کا اختیار ضلع کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹر کے پاس رہے گا۔ نیا بل مرکز کو کسی بھی وقف کے آڈٹ کی ہدایت دینے کا اختیار بھی دے گا۔ یہ آڈٹ بھارت کے کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل کے ذریعہ مقرر کردہ آڈیٹر یا مرکزی حکومت کے ذریعہ اس مقصد کے لئے نامزد افسر کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ظاہر ہے مودی حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ میں پیش اس ترمیمی بل کی حمایت میں اپوزیشن جما عتیں بالکل نہیں ہیں۔
اس ترمیمی بل کو لیکر مسلم برادری میں بھی گہری تشویش دیکھی جا رہی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد ملک بھر میں مساجد، مدارس، درگاہوں، اور دیگر دینی و فلاحی اداروں کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ وقف املاک کے ذریعے چلنے والے یہ ادارے مشکلات کا شکار ہو جائیں گے اور ان کی خودمختاری ختم ہو جائے گی۔مسلم ماہرینِ قانون اور تنظیموں نے اس فیصلے پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ترمیمات وقف املاک کی خودمختاری کو متاثر کریں گی اور ان کی آزادی میں رکاوٹ بنیں گی۔ وقف املاک مسلمانوں کے فلاحی کاموں اور مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ حکومت کی مداخلت ان کے انتظامی معاملات کو متاثر کر سکتی ہے، جس سے مسلم برادری کے حقوق کو نقصان پہنچے گا۔اس ترمیمی بل کے تمام مخالفین کا بھی یہی کہنا ہے کہ مسلمانوں پر مسلسل حملوں کے بعد، اب مودی حکومت اور آر ایس ایس نے مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ مسلمان اپنے تحفظ میں ناکام ہیں اوـر وہ’’ہندوتو‘‘ کی نفرت انگیزی اور ماب لنچنگ کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب وہ مسلمانوں کے خلاف اپنا سب سے بڑا منصوبہ لے کر آئے ہیں، جس میں وقف املاک پر قبضہ کرنا شامل ہے۔مگر دوسری طرف وقف املاک کو سرکاری تحویل میں جانے سے روکنے کے لئے مورچہ بندی بھی شروع ہو گئی ہے۔اب یہ سوال بھی گشت کرنے لگاہے کہ کیا ہم ماضی کی طرح ظالمانہ قوانین اور عدالتی فیصلوں پر مذمتی بیانات دے کر خاموش ہو جائیں گے یا وقف املاک اور مسلمانوں کے حقوق کو بچانے کے لیے عملی اقدامات کریں گے؟ وقت کا تقاضہ ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کیا جائے اور ایک مؤثر حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔