تاثیر ۱۳ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
خلیجی ممالک میں کشیدگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع کے علاوہ اسرائیل اور لبنان کے درمیان بھی کشیدگی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔خطے کی موجودہ صورتحال میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل اس وقت وجودی بحران سے گزر رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ ایران کسی بھی وقت اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے۔ یہ حملہ تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ھنیہ کے قتل کا بدلہ ہوگا۔ ایران کے حملے کا خوف اس قدر قوی ہے کہ دنیا بھر کی کئی فضائی کمپنیوں نے اسرائیل کے لیے اپنی پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔ امریکا نے مشرق وسطیٰ میں گائیڈڈ میزائل آبدوزوں کی تعیناتی کا حکم دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسرائیل کے سب سے بڑے دشمنوں میں سے ایک حزب اللہ نے بھی اپنا آپریشنل مرکز لبنان کے دارالحکومت بیروت سے دور منتقل کر دیا ہے۔اس تناظر میں اسرائیل کو بھی یہ خدشہ ہے کہ ایران کی جانب سے جلد ہی کوئی بڑا حملہ ہونے والا ہے۔ تاہم اسرائیلی فوج نے اس حملے کے حوالے سے اپنے شہریوں کو کوئی وارننگ جاری نہیں کی ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے اتوار کو امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کو بتایا کہ ایران اسرائیل پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ گیلنٹ اور آسٹن نے آپریشنل اور اسٹریٹجک کوآرڈینیشن اور ایرانی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیلی فوج کی تیاری پر تبادلہ خیال کیا۔
جمعے کو ایرانی پاسداران انقلاب کے ڈپٹی کمانڈر نے کہا کہ ایران 31 جولائی کو تہران میں فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے رہنما کے قتل کے لیے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے حکم پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس سے قبل خامنہ ای نے بھی کہا تھا کہ وہ اسرائیل کو ایسی سخت سزا دیں گے کہ اس کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان اسرائیل پر حملے کے خلاف ہیں لیکن ایرانی پاسداران انقلاب ان کے قابو سے باہر ہیں۔ پاسداران انقلاب براہ راست خامنہ ای کو رپورٹ کرتا ہے۔اِدھرلبنانی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ نے حالیہ دنوں میں بیروت کے مضافاتی علاقے دحیح میں اپنا ہیڈکوارٹر مکمل طور پر خالی کر دیا ہے۔ اس ماہ کے شروع میں، بیروت میں حزب اللہ کے اعلیٰ فوجی کمانڈر فواد شکر اور تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ھنیہ کے قتل کے بعد حزب اللہ کے لیے خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں ممکنہ اسرائیلی حملوں کے خوف سے حزب اللہ اپنے جنگجوؤں اور اعلیٰ افسران کو بیروت سے دور منتقل کر رہی ہے۔ یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حزب اللہ نے اسرائیل کو اپنے فوجی کمانڈر فواد شکر مجدل شمس کے قتل کی قیمت چکانے کی دھمکی دی ہے۔دوسری جانب امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان گائیڈڈ میزائل آبدوز کو مشرق وسطیٰ میں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ امریکی فوج پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ اسرائیل کے دفاع کو تقویت دینے کے لیے اس علاقے میں اضافی لڑاکا طیارے اور بحری جنگی جہاز تعینات کرے گی۔
جرمنی کی سب سے بڑی فضائی کمپنی لفتھانزا گروپ نے مشرق وسطیٰ میں تنازعات میں اضافے کے خدشے کے پیش نظر تل ابیب، تہران، بیروت، عمان اور اربیل کے لیے اپنی پروازوں کی معطلی میں 21 اگست تک توسیع کر دی ہے۔ لفتھانزا اس مدت کے دوران ایرانی اور عراقی فضائی حدود استعمال نہیں کرے گا۔ سوئس انٹرنیشنل ایئر لائنز کا کہنا ہے کہ اس نے بھی تل ابیب اور بیروت سے اپنی پروازوں کی معطلی میں 21 اگست تک توسیع کر دی ہے۔ اسی دوران ایئر فرانس اور اس کی ذیلی کمپنی ٹرانساویا فرانس نے بیروت کے لیے اپنی پروازوں پر پابندی کی مدت بڑھا دی ہے۔ ایئر فرانس کا کہنا ہے ، ’’لبنان میں سیکورٹی کی صورتحال کی وجہ سے 29 جولائی سے پروازیں معطل کر دی گئی تھیں ،ان کی بحالی زمین پر صورتحال کے نئے جائزے کے نتیجے پر مشروط ہے۔‘‘
بہر حال اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے پوری دنیا پریشان ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون یونٹ اسی طرح تیار کیے ہیں، جیسے اپریل کے حملے سے پہلے کیے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایران آئندہ 24 گھنٹوں کے اندر اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے۔ حالانکہ ادھر اسرائیل کے وزیر دفاع گیلنٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنے دفاع کو بہت زیادہ مضبوط کر لیا ہے اور ملک کسی بھی قسم کے حملے کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ ایران اور حزب اللہ کے ممکنہ حملے کے پیش نظر ایک ساتھ متعدد محاذوں پر جنگ لڑنے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ دریں اثنا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے پیر کے روز جاری اپنے ایک مشترکہ بیان میں ایران سے مطالبہ کیا ہے،’’ وہ خطے کو مکمل جنگ کی طرف دھکیلنے سے گریز کرے۔ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش ہے اور ہم کشیدگی میں کمی اور علاقائی استحکام کے اپنے عزم میں متحد ہیں۔مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ کسی بھی ملک یا قوم کے حق میں بہتر نہیں ہو گی۔
******************