تاثیر ۸ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
بھوپال، 8 اگست: مدھیہ پردیش میں مایوسی کے دور سے گزر رہی کانگریس نے سرکاری دفاتر کی ٹائمنگ کی طرز پر ریاستی دفتر میں کام کرنے کی تیاری کی ہے۔ جمعرات کو پی سی سی کے باہر دفتری اوقات کے حوالے سے ایک بورڈ بھی لگایا گیا جس میں اتوار کی چھٹی کا بھی ذکر تھا۔ جس کے بعد بورڈ لگانے کو لے کر تنازعہ ہو گیا۔ بی جے پی نے اس معاملے پر کانگریس کو ہدف تنقید بنایا اور بعد میں تنازعہ بڑھنے پر بورڈ کو ہٹا دیا گیا۔مدھیہ پردیش کانگریس کے بھوپال دفتر کے کام کے اوقات ، اس کے کھلنے اور بند ہونے کا وقت طے کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق کانگریس کے ریاستی دفتر کا تالا صبح 11 بجے کھلے گا اور شام 6 بجے تک یہاں کام ہوگا۔ سرکاری دفاتر کی طرح ریاستی کانگریس کے دفتر میں بھی اتوار کو چھٹی رہیگی۔ کانگریس نے ریاستی دفتر کے باہر اس سلسلے میں ایک بورڈ بھی لگایا تھا، تاہم جب اس پر تنازعہ بڑھ گیا تو کانگریس عہدیدار نے اس بورڈ کو ہٹا دیا۔ کانگریس کے ریاستی عہدیدار امت شرما نے کہا، ’’بورڈ کو لیکر بدگمانی کی صورت حال پیدا ہوگئی، یہ بورڈ ان کارکنوں کے لیے لگایا گیا تھا جو ریاست کے دور دراز علاقوں سے اپنے لیڈروں سے ملنے کے لیے یہاں ا?تے ہیں، حالانکہ اس کو لیکر بدگمانی پیدا ہورہی تھی، اس لیے اسے ہٹا دیا گیا ہے۔ کانگریس دفتر کی ٹائمنگ فکس والے بورڈ لگنے پر بی جے پی کے ترجمان نریندر سلوجا نے طنز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹ ٹائم کانگریس کے پارٹ ٹائم صدر…، شاید کانگریس کے قومی ترجمان پون کھیڑا ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس لیڈروں کی اقتدار کی خماری ابھی تک اتری نہیں ہے۔ وہ اب بھی اپنے آپ کو اقتدار میں ہی سمجھ رہے ہیں۔جیتو پٹواری کے صدر بننے کے بعد ہزاروں کانگریسی کانگریس چھوڑ چکے ہیں، صرف چند کانگریسی رہ گئے ہیں، اب ان سے ملنے کے لیے بھی مدھیہ پردیش کانگریس ہیڈ کوارٹر میں صبح 11 بجے سے شام 6 بجے تک کا وقت مقرر ہے… اتوار کو مکمل چھٹی ہے۔ ..کارپوریٹ کلچر پر اب جیتو پٹواری کی کانگریس چلے گی … کانگریسی اب شام 6 بجے کے بعد اور اتوار کو ’’سرور اور مستی‘‘ میں نظر ا?ئیں گے… جیتو پٹواری کے اس فیصلے کو ان کے اپنے ہی ترجمانوں نے مخالفت کر دی، بورڈ کو اکھاڑ کر پھینک دیا…؟ کانگریس میں تو یہ ہوتا ہی آیا ہے کہ منموہن سنگھ کے آرڈیننس کو راہل گاندھی نے پھاڑ دیا اور اب ایم پی میں جیتو پٹواری کے حکم کو ان کے اپنے ترجمانوں نے ہی دھول چٹا دی… عجب کانگریس – غضب کانگریس!