تاثیر ۱۸ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
اگلے چند مہینوں میں مہاراشٹر کے ساتھ ساتھ جھارکھنڈ میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔اس وجہ سے ریاست کی تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اسی دوران سیاسی حلقوں میں بی جے پی کے ذریعہ ایک بڑا سیاسی کھیل کھیلنے کی خبریں آنے لگی ہیں۔دعویٰ کیا جا رہا ہے جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ چمپائی سورین ان دنوں جھارکھنڈ مکتی مورچہ سے کافی ناراض ہیں اور وہ کبھی بھی بی جے پی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ انکا کہنا ہے ، ’’مجھے ان تمام افواہوں کا کوئی علم نہیں ہے، جو پھیلائی جا رہی ہیں۔ہم کہیں نہیں جا رہے ہیں۔ ہم وہیں ہیں جہاں ہم ہیں۔‘‘جبکہ ہواؤں میں یہ بات گشت کر رہی ہے کہ چمپائی سورین بی جے پی میں شامل ہونے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہیں۔صرف اعلان ہونے بھر کی دیر ہے۔سیاسی مبصرین بھی یہی کہہ رہے ہیںکہ چمپئی سورین صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ ہم جہاں ہیں وہیں ٹھیک ہیں۔ ان کا یہ بیان کہ’’ ہم کچھ بھی نہیں جانتے اور ہم وہیںہیں، جہاں ہم ہیں‘‘ غلط فہمی میں مبتلا کرنے والا ہے۔ویسے اِدھربی جے پی نے بھی جے ایم ایم لیڈر اور سابق چیف منسٹر چمپائی سورین کے بی جے پی میں شامل ہونے کی قیاس آرائیوں پر ردعمل دینا شروع کردیا ہے۔ بی جے پی کے سابق ریاستی صدر اور راجیہ سبھا ممبر دیپک پرکاش کا کہنا ہے کہ جے ایم ایم نے جس طرح چمپائی سورین کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹایا تھا، وہ صحیح نہیں تھا۔ اس کے علاوہ آسام کے وزیر اعلیٰ اور جھارکھنڈ بی جے پی کے انتخابی شریک انچارج ہمنت بسوا سرما کا کہنا ہے کہ جے ایم ایم کے پانچ سالہ دور میں سب سے بہتر کام چمپائی سورین کے وزیر اعلیٰ کے طور پر چھ ماہ کے دور میں ہوا ہے۔
دریں اثنا ء ، میڈیا رپورٹس کے مطابق سرائے کیلا اسمبلی حلقہ تحت مہولدیہ گاؤں واقع جے ایم ایم کے دفتر ، بازار اور مضافات کے گاؤں سے جے ایم ایم کے جھنڈے ہٹا دیے گئے ہیں۔ اسی دوران چمپائی سورین دہلی پہنچ گئے ہیں۔ ان کے ساتھ پارٹی کے دیگر ایم ایل اے چمرا لنڈا، لوبن ہیمبروم، دشرتھ گگرائی، رام داس سورین، سمیر موہنتی وغیرہ بھی موجود بتائے جاتے ہیں۔ دہلی پہنچنے پر جب سراےکیلا اسمبلی حلقہ سے جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کے ایم ایل اے چمپائی سورین سے بی جے پی میں شامل ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی کام سے دہلی آئے ہیں۔ چمپائی سورین رانچی سے پہلے کولکتہ گئے تھے اور اتوار کو کولکتہ سے دہلی آئے تھے۔ دہلی پہنچنے کے بعد چمپائی سورین نے سوشل میڈیا سائٹ’’ایکس‘‘پر اپنا بائیو بدل لیا ہے۔ جے ایم ایم کو’’ایکس‘‘ اکاؤنٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ چمپائی سورین نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل پر صرف ’’جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلی‘‘ لکھا ہے۔ اس پر جھارکھنڈ مکتی مورچہ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ نہ ہی جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی کوئی تصویر دکھائی دے رہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ چمپائی سورین اس سال فروری سے جولائی تک جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ تھے۔ جب ہیمنت سورین کو گزشتہ جنوری میں زمین گھوٹالے میں گرفتار کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے ہیمنت سورین نے جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ہیمنت سورین کے استعفیٰ کے بعدچمپائی سورین کو فروری میں ریاست کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔ تاہم، جولائی میں جب ہیمنت سورین ضمانت پر جیل سے باہر آئے تو چمپائی سورین نے وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ہیمنت سورین دوبارہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ جھارکھنڈ کی بی جے پی یونٹ نے چمپئی سورین کے استعفیٰ کو ایک ایشو بنایا تھا اور الزام لگایا تھا کہ چمپئی سورین کے استعفیٰ سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ ہیمنت سورین کے خاندان کے علاوہ کوئی اور لیڈر جھارکھنڈ میں ریاست کا وزیراعلیٰ نہیں بن سکتا ہے۔ بی جے پی نے ہیمنت سورین پر خود غرضی کی سیاست کرنے کا الزام لگایا۔ بی جے پی نے چمپئی سورین کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کو بھی قبائلی برادری کی توہین قرار دیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ چمپئی سورین نے جھارکھنڈ کو ریاست کا درجہ دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چمپائی سورین کا خاص طور پر ریاست کی قبائلی برادری میں کافی اثر و رسوخ ہے۔ انھیں کولہن کا شیر بھی کہا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر چمپائی سورین جے ایم ایم چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوتے ہیں تو بی جے پی کو امید ہے کہ اسے قبائلی ووٹ بینک سے اچھی حمایت مل سکتی ہے۔ اس معاملے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ جب جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کیا گیا تھا، اس سے پہلے ہیمنت سورین نے چمپائی سورین کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا، وہیں سپریم کورٹ سے راحت ملنے کے بعد جب ہیمنت سورین باہر آئے، تو انہوں نے اس معاملے میں چمپائی سورین کو وزیر اعلیٰ کی کرسی سے ہٹا کر وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا۔ اس پورے واقعہ سے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ چمپائی سورین کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کی وجہ سے پارٹی سے ناراض تھے۔ ایسے میں چمپائی سورین ابھی کھل کر کچھ نہیں کہہ رہے ہیں، لیکن مانا جا رہا ہے کہ اگر وہ ابھی جے ایم ایم کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوتے ہیں تو اسمبلی انتخابات کے مدنظر قبائلی ووٹ بینک کے معاملے میں وہ بی جے پی کے لئے مفید اور جے ایم ایم وکانگریس کے اتحاد کے لئےنقصاندہ ثابت ہو سکتے ہیں۔