! دوبارہ نئے واقعات کا انتظار نہیں کیا جائے

تاثیر  ۲۳   اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

کولکاتہ کے اسپتال میں ایک ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ملک بھر میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی حفاظت کو لے کر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی زیرقیادت بنچ نے سماعت کے دوران پچھلے  پچھلے دنوں کہا کہ یہ مسئلہ صرف کولکتہ کیس کا نہیں ہے بلکہ یہ ملک بھر میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی حفاظت سے متعلق مسئلہ ہے۔ ہم دوبارہ نئے واقعات کا انتظار نہیں کر سکتے۔سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ڈاکٹروں کے تحفظ کے حوالے سے مرکزی وزارت  صحت نے ایک 14 رکنی نیشنل ٹاسک فورس تشکیل دے دی ہے ،جس کے پہلے اجلاس کی تاریخ بھی طے کر لی گئی ہے۔ ٹاسک فورس کی پہلی میٹنگ 27 اگست کو صبح 11.30 بجے طلب کی گئی ہے، جس میں ماہر ڈاکٹر اپنی رائے پیش کریں گے۔ سپریم کورٹ کی اس مؤثر پہل کے مد نظر، احتجاج پر آمادہ ڈاکٹروں نے جمعہ کو بھی اپنا احتجاج ختم بھی کر دیا ۔ اب حکومت ڈاکٹروں کی حفاظت کے معاملے پر بھی تیزی سے کارروائی کر رہی ہے۔ اِدھر مرکزی وزارت صحت نے ٹاسک فورس کی تشکیل کے حوالے سے باضابطہ حکم جاری کیا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ٹاسک فورس کے لئے نامزد کیے گئے ماہرین اور ڈاکٹروں کی رائے سنی جائے گی اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا کہ کن لوگوں کو بحث کے لیے بلایا جائے گا۔ مختلف ڈاکٹرز ایسوسی ایشنز ، میڈیکل ایسوسی ایشنز، ریذیڈنٹ ڈاکٹرز ایسوسی ایشنز بھی اپنے خیالات پیش کریں گی۔ اسپتالوں کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔ یہ بھی طے کیا جائے گا کہ موجودہ صورتحال کو کیسے بہتر بنایا جائے اور ڈاکٹروں کی حفاظت کے حوالے سے کیا ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایت (20اگست) کے مطابق یہ ٹاسک فورس تین ہفتوں میں عبوری اور دو ماہ میں حتمی رپورٹ پیش کرے گی۔ مرکزی صحت سکریٹری اپوروا چندرا نے بھی حال ہی میں کئی ڈاکٹروں کی انجمنوں سے بات چیت کی ہے اور ان کی رائے سنی ہے۔وزارت ان تمام تجاویز پر غور کرے گی اور پہلی میٹنگ میں ہی ہر پہلو پر غور کیا جائے گا۔ ویسے وزارت کے سامنے سب سے بڑا ہدف ملک کے اسپتال میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کو محفوظ ماحول فراہم کرنا اور جو بھی کوتاہیاں ہیں، ان کی نشاندہی کرنا اور انہیں دور کرنا ہے۔
14 رکنی نیشنل ٹاسک فورس میں مرکزی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ساتھ طبی پیشے کے ماہرین بھی شامل ہیں۔ یہ ٹاسک فورس کابینہ سیکرٹری کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہے۔ حکومت ہند کے ہوم سکریٹری بھی اس کا حصہ ہوں گے۔ مرکزی  وزارت صحت کے سکریٹری اس کے ممبر سکریٹری ہوں گے۔ اس کے علاوہ نیشنل میڈیکل کمیشن کے چیئرمین، نیشنل بورڈ آف ایگزامینیشن کے چیئرمین، ایمس دہلی کے ڈائریکٹر، ڈائرکٹر جنرل میڈیکل سروسز (نیوی) سرجن وائس ایڈمرل آرتی سرین، ڈاکٹر ڈی ناگیشور ریڈی، ایشین انسٹی ٹیوٹ آف گیسٹرو اینٹرولوجی کے چیئرمین۔ اور اے آئی جی ہسپتال حیدرآباد، ڈاکٹر پرمیلا مورتی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز کی ڈائرکٹر، ڈاکٹر گووردھن دت پوری، ایمس جودھ پور کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور دیگر ماہرین صحت کو ٹاسک فورس میں شامل کیا گیا ہے۔
ٹاسک فورس طبی عملے کی حفاظت کے حوالے سے ایک مؤثر ایکشن پلان تیار کرے گی، جس میں مختلف حفاظتی اقدامات کی سفارشات شامل ہوں گی۔ مثال کے طور پر اسپتالوں اور طبی اداروں میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں، ٹراسک فورس ہر پہلو پر اپنی سفارشات دے گی۔ ہر داخلی راستے پر سامان اور افراد کی اسکریننگ کا سخت نظام ہو، تاکہ کوئی بھی شخص اسپتال میں ہتھیار نہ لے جا سکے۔ غیر مجاز لوگوں کے داخلے پر روک لگانے کی بھی ضرورت ہے۔نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے حفاظتی اقدامات کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ اسپتالوں میں سی سی ٹی وی اور لائٹنگ کی کمی کو بھی پوارا کرنا ضروری ہے۔ اگراسپتال اور ہاسٹل کے درمیان فاصلہ ہے تو ادارے کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ رات کے وقت سٹاف کو ان کے گھر یا ہاسٹل لے جائے۔ سماجی کارکنوں کی تقرری، کونسلنگ، ورکشاپس کا انعقاد اور ملازمین کی حفاظتی کمیٹیوں کی تشکیل ہونی چاہیے۔ داخلی اور خارجی راستوں کے ساتھ ساتھ کیمپس کی راہداریوں اور مریضوں کے کمروں میں بھی سی سی ٹی وی ہونا چاہیے۔ ٹاسک فورس ان تمام مسائل پر غور کرے گی اور سفارشات دے گی۔ ٹاسک فورس کو سیکیورٹی کے ہر پہلو کو ایکشن پلان میں شامل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔
  صحت کے سکریٹری اپوروا چندرا نے اسپتالوں میں سیکورٹی کے معاملے پر کئی دور کی میٹنگیں کی ہیں۔ کئی تفصیلی احکامات جاری کیے ہیں۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے جس طرح ڈاکٹروں اور عملے پر تشدد کے واقعات سامنے آرہے ہیں، اس کے پیش نظر حفاظتی اقدامات کے حوالے سے سختی کی ضرورت ہے۔ اسپتال کے داخلی اور خارجی دروازوں پر سی سی ٹی وی کیمرے ہونے چاہئیں تاکہ آنے جانے والے تمام لوگوں کی سرگرمیاں کیمروں میں قید ہو سکیں۔ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو یہ کیمرے مجرم کو پکڑنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اس کے علاوہ، اگر طبی عملے کے خلاف کوئی تشدد ہوتا ہے، تو اسپتال کی ذمہ داری ہے کہ وہ چھ گھنٹے کے اندر ایف آئی آر درج کرے۔ دوبارہ  اس طرح کے نئے واقعات کا انتظار نہیں کیا جائے۔