مایا وتی : اندر کُچھ اور باہر کچھ ؟

تاثیر  ۲۸   اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

اپنی پرانی روایت کے بر عکس بہوجن سماج پارٹی یوپی کی دس سیٹوں پر ضمنی الیکشن لڑنے جا رہی ہے۔ پارٹی نے پوری باضابطگی کے ساتھ کبھی ضمنی الیکشن نہیں لڑا ہے۔ کچھ مواقع مستثنیٰ بھی ہیں۔ یہ روایت کانسی رام کے زمانے سے جاری ہے۔ مایاوتی نے بھی اسے بر قرار رکھا ہے۔ اس بار بی ایس پی ریاست کی تمام دس سیٹوں پر اپنے امیدوار اتار رہی ہے۔ بی ایس پی کے میدان میں اترنے سے سماج وادی پارٹی اور کانگریس لیڈروں پر دباؤ پڑے گا۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ کانگریس ذات پر مبنی مردم شماری اور’’کوٹہ کے اندر کوٹہ‘‘ جیسے مسائل اٹھا رہی ہے۔ ان مسائل پر آواز اٹھا کر وہ دلت ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں ایس پی اور کانگریس کی طاقت میں اضافہ میں دلت ووٹروں کا حصہ اہم رہا ہے۔ اگر بی ایس پی طاقت کا استعمال کرتی ہے اور اپنے بنیادی ووٹ بینک پر قبضہ کرتی ہے، تو ایس پی اور کانگریس کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
  سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی کو حال ہی میں پانچ سال کے لیے پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پارٹی میں دوبارہ عہدہ اور اختیار اپنے بھتیجے آکاش کو دے دیا ہے۔ آکاش وہ ہیں، جنھوں نے گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران جارحانہ انداز میں مہم شروع کی تھی۔ درمیان میں مایاوتی نے انہیں عہدے سے ہٹا دیا اور انتخابی مہم سے دور رکھا۔ آکاش کو دوبارہ فعال کرنے کا صاف مطلب ہے کہ اب وہ اپنے بنیادی ووٹروں کو ہر طرح سے متحد کرنے کی کوشش کریں گے۔ یعنی بی ایس پی اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کی کوشش کرے گی۔بی ایس پی نے 2007 سے 2012 تک اتر پردیش میں اکثریتی حکومت چلائی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب بی ایس پی ریاستی اسمبلی سیٹوں کے لحاظ سے نمبر ون پارٹی ہوا کرتی تھی۔ حالات میں تبدیلی کے ساتھ بی ایس پی چوتھے اور پانچویں نمبر پر کھڑی ہے۔ اس کا ووٹ شیئر 30 سےکم ہو کر 12.5-13 رہ گیا ہے۔ ایسے میں اگر پارٹی خود کو دوبارہ تیار کرتی ہے تو دلت طبقے سے تعلق رکھنے والے اس کے بنیادی ووٹر پارٹی میں متحد ہو سکتے ہیں۔ مایاوتی نے خود اپنے ووٹروں کو سمجھانا شروع کر دیا ہے کہ آج دلتوں کی بات کرنے والی کانگریس پارٹی نے اقتدار میں رہتے ہوئے دلتوں اور پسماندہ طبقات کو کیوں یاد نہیں کیا۔
  گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے آئین میں تبدیلی کرکے ریزرویشن ختم کرنے کے بیانیے کا فائدہ اٹھایا۔ یہ سوچ بھی تہہ تک پہنچ گئی۔ یہ ریاست میں بی جے پی کی سیٹوں میں کمی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک ہے۔ اپنی ذات اور ریزرویشن کو بچانے کے نام پر بہت سارے دلت ووٹ ایس پی اورکانگریس اتحاد کے ساتھ چلے گئے۔ اس کا فائدہ دونوں جماعتوں کو ہوا۔ اس سے پہلے بی ایس پی نے 2022 میں سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش کے استعفیٰ سے خالی ہونے والی اعظم گڑھ سیٹ پر اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا۔ بی ایس پی امیدوار گڈو جمالی خود اس الیکشن میں نہیں جیت سکے تھے، لیکن سماج وادی پارٹی کے امیدوار اور اکھلیش کے کزن دھرمیندر ضرور ہار گئے۔ گڈو جمالی کو ڈھائی لاکھ سے زائد ووٹ ملے تھے۔  نیرہوا کی جیت کی برتری صرف 8-10 ووٹوں کی تھی۔ اس کا مطلب ہےکہ مسلم اور دلت ووٹوں کے امتزاج سے بی جے پی کو فائدہ ہوا تھا۔
تاہم صحافی اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ مایاوتی کا مقصد بی جے پی کو فائدہ پہنچانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ بی ایس پی کی جانب سے مایاوتی کے علاوہ کوئی بھی سرکاری بیان نہیں دیتا، لیکن پارٹی کارکنوں سے بات چیت سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پارٹی اب خود کو زندہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اتر پردیش میں بی ایس پی کے لیے پہلی دشمن سماج وادی پارٹی ہے۔ اس وقت ووٹ شیئر میں پیچھے رہنے والی پارٹی کئی اپوزیشن جماعتوں سے بیک وقت لڑ کر اپنی پرانی بنیاد حاصل نہیں کر سکتی ہے۔ اسے ایک ایک کر کے اپنے مخالفین سے لڑنا پڑے گا۔  آج کی تایریخ  میںبی ایس پی یہی کر رہی ہے۔اِدھر حالیہ اپنے کئی مواقع پر مایاوتی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے کچھ بیانات کی تعریف کی ہے۔ دراصل، ان کے لیے بی جے پی سے اتنا قریبی مقابلہ نہیں ہے جتنا کہ ایس پی ہے۔  ان کا دعویٰ ہے کہ آخر یہ سماج وادی پارٹی ہی ہے، جو پسماندہ دلتوں کے ذریعے بی ایس پی کے ووٹ بینک پر قبضہ کر رہی ہے۔
بی ایس پی کے پہلے ضمنی انتخاب نہ لڑنے کے سوال پر کہا جا رہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ پہلے بی ایس پی کہتی تھی کہ وہ ضمنی انتخابات میں اپنے کارکنوں اور وسائل کو ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ اس لیے انہیں ضمنی انتخابات کے بجائے صرف عام انتخابات میں حصہ لینا پڑا۔ لیکن یہ دلیل اس وقت درست تھی جب بی ایس پی ایک بڑی پارٹی تھی۔ اب یہ دلیل بی ایس پی کی صورت حال کے لیے ٹھیک نہیں لگتی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارٹی کے نوجوان کارکنوں نے بھی یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ الیکشن لڑ کر ہی سیاست میں پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہو سکتی ہے۔ویسے دیگر سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ یوپی کی سبھی 10 سیٹوں پرضمنی  الکشن لڑنےسے متعلق مایا وتی کا فیصلہ بالواسطہ طور پر بی جے پی کے فائدے سے وابستہ ہے۔ یعنی اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ دکھائی دے رہا ہے۔