تاثیر ۲۱ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
کولکتہ کی خاتون ریزڈنٹ ڈاکٹر کے ساتھ حیوانیت کےمعاملے میں سپریم کورٹ کی پھٹکار کے بعد مغربی بنگال کی ممتا بنرجی حکومت نے تین پولیس افسران کو معطل کر دیاہے۔ بتایا جارہا ہے کہ دن بھر کام کرنے کے بعد ڈاکٹر نے رات کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسپتال کے بیکار پڑے سیمینار ہال میں کھانا کھایا اور سب کے جانے کے بعد وہ تھکاوٹ کی وجہ سے وہیں آرام کرنے لگی۔ اسی دوران ملزم شراب پی کر اسپتال کے پچھلے دروازے سے داخل ہوئے اور موقع غنیمت جانتے ہوئے ڈاکٹر پر حملہ کردیا۔ اس نے درندگی کی حد پار کرتے ہوئے ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی کی اور پھر قتل کر دیا۔ ڈاکٹر کی بے جان لاش ساری رات وہیں پڑی رہی۔ اگلی صبح جب کلینر وہاں گیا تو اس نے ڈاکٹر کی لاش دیکھی۔ اس معاملے میں بڑا سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ آر جی کر میڈیکل اسپتال کے ڈارک اسپاٹ کو یونہی کیوں چھوڑ دیا گیا؟ کیا پورے ملک کا یہ حال ہے؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دسمبر 2012 میں نربھیا گینگ ریپ کے بعد بھی ہم کیوں متنبہ نہیں ہو پائے؟ اسپتالوں، اسکولوں اور ویران علاقوں یا گلیوں کے کونوں جیسی جگہوں پر حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ سی سی ٹی وی یا لائٹس کیوں نہیں لگائی گئیں؟ ان سوالوں کے حوالے سے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جس اسپتال میں یہ گھناؤنا جرم کیا گیا، اس کے سیمینار ہال کو سیل کیا جانا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر وں کا کہنا تھا کہ اسپتال کے سیمینار ہال کو سیل کیوں نہیں کیا گیا؟ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سیمینار ہال کو کھلا رکھنے کی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ وہاں مرمت کا کام کرنا تھا ۔ لیکن ، سچ بات یہ ہے کہ مرمت کا کام سیمینار ہال کے ساتھ والے کمرے میں ہونا تھا۔ سیمینار ہال کے اندر کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ بھی نہیں تھا۔ یہ ایک طرح کی غفلت ہے۔
جرائم کا موقع مجرموں کو بھی حوصلہ دیتا ہے کرائم پیٹرن تھیوری کے مطابق جرم اسی وقت ہوتا ہے، جب کوئی علاقہ جرم کا موقع فراہم کرے ۔مثال کے طور پر، کسی شاپنگ مال یا بازار کے آس پاس کار چوری کے امکانات اور پرس چھیننے، جیب کترے اور چین چھیننے کے واقعات سب سے زیادہ ہوتے ہیں، کیونکہ اس علاقے میں ایسے جرائم کے کافی مواقع موجود ہیں۔ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ عام طور پر مجرم اکیلے میں کام نہیں کرتے ہیں۔وہ اس کام میں وہ اپنے خاندان کے لوگوں یا دوستوں کو بھی شامل کرتے ہیں۔ جرائم کے لیے ایک نیٹ ورک بناتے ہیں۔ کوئی بھی مجرم اکیلے میں جرم تب کرتا ہے،جب اسے کوئی ٹرگرنگ ایونٹ ملتا ہے۔کیونکہ ایسے لوگوں کی ذہنیت مجرمانہ نوعیت کی ہوتی ہے۔ جب ان کے لئے ایسے مواقع پیدا ہوجاتے ہیں تو وہ جرم کر بیٹھتے ہیں۔کولکتہ کیس میں بھی یہی ہوا ہوگا۔ سیمینار ہال مجرم جب آیا تو شراب کے نشے میں دُھت تھااور سنسان میں ڈاکٹر کو اکیلا پاکرنشے نے اس کی حیوانیت کو جگا دیا۔
معاملے کے ایک جانکار کا کہنا ہے کہ مارچ 2023 تک 15 ہندوستانی شہروں میں 15 لاکھ سے زیادہ سیکیورٹی کیمرے موجود تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر 1,000 افراد کے لیے اوسطاً 11 کیمرے ہیں۔ ایک ہی وقت میں، کیمروں کی تعداد ملک کے مختلف شہروں کے درمیان مختلف ہوتی ہے۔ملک کے 91 فیصدسی سی ٹی وی کیمرے حیدرآباد، دہلی، چنئی اور اندور میں ہیں۔ جون 2023 تک، یہ شہر دنیا کے سب سے زیادہ نگرانی والے شہروں میں شامل تھے۔ حیدرآباد میں فی 1,000 افراد پر سب سے زیادہ کیمرے 83.32 تھے۔ اس کے بعد اندور میں 60 اور دہلی میں یہ تعداد 19.96 تھی۔بتایا جاتا ہے کہ21 ستمبر 2023 تک کولکتہ پولیس کے دائرہ اختیار میں شہر کے کئی مقامات پر تقریباً 3,000 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے تھے۔ کلکتہ پولیس شہر بھر میں مزید 3,500 کیمرے نصب کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جس کا مقصد ہر 1 کلومیٹر کے دائرے میں ایک کیمرہ نصب کرنا ہے۔ خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پرہجوم علاقوں میں کیمرے نصب کیے جائیں گے۔ کیمروں میں عام سی سی ٹی وی کیمرے اور آئی پی پر مبنی خصوصی انفراریڈ بلٹ کیمرے شامل ہوں گے، جو کم روشنی میں بھی واضح تصویریں لے سکتے ہیں اور ویڈیو ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ تاہم ایسے کیمرے ہسپتالوں اور سکولوں میں انتہائی چھوٹے پیمانے پر ہی لگائے گئے ہیں۔
دہلی میں کرائم کیس دیکھنے والے ایک ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ میں نے بھی عصمت دری اور قتل کے ایسے کئی کیس دیکھے ہیں، جن میںکچھ کولکتہ کے کیس جیسے ہیتھے۔ ایسے جرائم کرنے والے لوگ شکاری قسم کے ہوتے ہیں۔ وہ اچھے لگتے ہیں اور عام لوگوں میں اتنے اچھے رہتے ہیں کہ انہیں آسانی سے پہچانا نہیں جاتا۔ تاہم، وہ گھات لگا کر اندھیرے میں اپنے شکار کا پتہ لگاتے ہیں۔ موقع پا کر اور اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد مظلومہ کو قتل کر دیتے ہیں۔ ہر گھنٹے اوسطاََ51 خواتین اس طرح کے جرائم کا شکار ہوتی ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی رپورٹ کے مطابق ملک میں خواتین کے خلاف جرائم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ 2022 میں خواتین کے خلاف جرائم کے کل 4 لاکھ 45 ہزار 256 مقدمات درج کیے گئے، جو 2021 کے مقابلے میں 4 فیصد زیادہ ہیں۔ یعنی ہر گھنٹے میں 51 خواتین کے خلاف جرم کیا گیا۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق، 2022 میں ملک میں کل 58,24,946 مجرمانہ معاملے درج ہوئے، جن میں سے 4,45,256 مقدمات خواتین کے خلاف جرائم کے تھے، جب کہ سال 2021 میں 4,28,278 مقدمات درج کیے گئے تھے۔یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ملک میں کام کی جگہوں پر بھی خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2018 اور 2022 کے درمیان ایسے جرائم 402 سے بڑھ کر 422 ہو گئے۔ یہ وہ صورت حال ہے جب کام کی جگہ پر خواتین کے خلاف جنسی جرائم ایکٹ 2013 کو کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ کولکاتا معاملہ بھی کام کی جگہ پر بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک مثال ہے، جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے !
**********