پٹنہ سیٹی میں بہتر تابوت کے اٹھائیس (۲۸)واں دور کا پُر درد جلوس کا اختتام

تاثیر  ۱۹   اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

پٹنہ سیٹی 19 اگست ( ذوالقرنین) سرزمین عظیم آباد (پٹنہ) میں بارگاہ خاتونِ جناں دختر رسول الثقلین معصومہ کو نین جناب فاطمہ زہرا صلوۃ اللہ علیہا میں تعزیت پیش کرنے کیلئے بانیان بہتر تابوت سید ہادی حسن مرزا امتیاز حیدرسید امانت عباس اور سید ناصر عباس نے اس پر درد جلوس کا اہتمام کیا یہ جلوس مرحومہ امام باندی بیگم وقف اسٹیٹ گلزارباغ پٹنہ 7میں کربلا کے بہتر شہیدوں کی یاد میں کیا گیا جنکی لاشیں بیگورکفن کربلا کے تپتے صحرا میںپڑی ہوئی تھی جن پر سوائے بیکسی کے کوئی رونے والا نہ تھا سوائے بے بسی کے کوئی ماتم کرنے والا نہ تھا بہتر تابوت کا یہ جلوس بر آمد ہونے سے قبل پروگرام کا افتتاح افہام عباس رضوی نے تلاوت کلام پاک سے کیا اس کے بعد سوز خوانی سید جرار حسین نے کیا اور پیش خوانی سید واعظ احمدصاحب سید فرخ حسین نقوی نے مرثیہ پیش کیا مجلس عزا سے عالی جناب مولانا سید سجاد حسین رضوی قبلہ صاحب قبلہ نے سامعین سے خطاب کیا ان کی مجلس نے ایک پر درد سماں بنا دیا مجلس کے اختتام کے بعد مولانا روش شیرازی نے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں اپنی بصیرت افروز تقریر شروع کی وہ اپنی تقریر میں کربلا کے بہتر شہیدوں کی قربانیوں کا تذکرہ سلسلہ وار کر رہے تھے وہ ایک ایک شہید کا تعارف بھی کرا رہے تھے اور انکے چاہنے والے اپنے کاندھوں پر تابوت لئے ہوئے بلند آوازمیں گریہ کرتے ہوئے امام بارگاہ سے برآمد ہو رہے تھے سب سے پہلے امام حسین کے سن رسیدہ صحابی جناب مسلم ابن عوسجہ کا تابوت برآمد ہوا جسے اپنے کاندھوں پر لئے ہوئے شاہ اعجاز امام سید جرارحسین نقوی اور کچھ بزرگ افراد گریہ کرتے ہوئے نکلے اسطرح سے یکے بعد دیگرے ایک ایک اصحاب و انصار کی قربانیوں کا تذکرہ مولانا کرتے رہے اور مومنین گریہ وزاری کرتے رہے امام باندی بیگم وقف اسٹیٹ میں بہتر تابوت کے جلوس کا منظر بہت ہی پُردرد سماں پیش کر رہا تھا اُس وقت پورا چمن شیون و ماتم کی آواز سے گونجنے لگا تھا۔
جب امام حسین کے صاحبزادے ہم شکل پیمبر جناب علی اکبر کا تابوت اپنے کاندھے پر لئے ہوئے انکے چاہنے والے نوجوانوں نے امام بارگاہ سے برآمدہوئے اور مولانا موصوف نے اس کی اندوہناک کی منظر کشی کی حضرت عباس علمدار کے تابوت کے ساتھ جب ان کا علم برآمد ہوا جس کو لئے ہوئے اسد حسین برآمد ہوئے تو مومنین اپنا سر اور سینہ پیٹنے لگے اور انکی شہادت کو یاد کر کے بلند آواز میں گریہ و بکا کرنے لگے جب کر بلا کے اُس شہید کا تذکرہ مولا نا موصوف نے کیا جسکے منہ سے ابھی شیر مادر کی بو آتی تھی اور جسکو گہوارہ میں ہی نیند آتی تھی جن کا نام علی اصغر ابن حسین تھا زائرین کے ساتھ آئے ہوئے چھوٹے بچے بھی بیچکیاں لیکر رونے لگے سامعین بے سود ہو کر جناب علی اصغر کے گہوارہ کی اس نشانی کا بوسہ لینے کیلئے جس کو کچھ چھوٹے چھوٹے بچے اپنے کاندھوں پر بلند کئے ہوئے تھے گریہ و ماتم کئے ہوئے ٹوٹ پڑے اسکے علاوہ علاوہ انسان کو درس انسانیت دینے والے اس عظیم و با کردار شہید جس کو تاریخ اسلام میں سید الشہدا کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے جن کا نام حسین ابن علی ہے کا تابوت اپنے کاندھوں پر لئے ہوئے بانیان۷۲ تابوت مرزا امتیاز حیدر سید امانت عباس امام بارگاہ سے برآمد ہوئے تو ایک کربناک منظر کا دیدار ہورہاتھا سامعین اس عظیم شہید کے تابوت کا کاندھا دینے کیلئے جوق در جوق آئے حسین کے چاہنے والا کایہ کر بناک منظر پیش کر رہا تھا اور انکے عمل سے یہ لگ رہا تھا کہ اگر یہ چاہنے والے کربلا میں موجود ہوتے تو ان کا لاشہ صحرا میں پڑا رہنے نہیں دیتے تمام تابوت امام بارگاہ سے برآمد ہو چکا اور مولانا موصوف اپنی پر درد تقریر کر چکے تو محمد موسیٰ علی ہاشمی نے اپنی پر درد آواز میں سلام پیش کیا اسکے بعد بانیان بہتر تابوت نے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں مناجات پیش کیا یہ لوگ مناجات پڑھ رہے تھے لوگ ہاتھوں کو بلندکر کے آمین کی صدائیں بلند کر رہے تھے انجمنوں کے سکریٹری و ممبران کا تابوت اٹھانے میں بھر پورتعاون رہا جس میں انجمن عباسیہ پنجتنی حسینیہ، حیدری سجادیہ رجسٹرڈ ہا شمیہ سارن قاسمیہ دستہ سجادیہ فیض معصومین اور مومنین مقامی و بیرونی نے بھی تابوت اٹھا کر دختر رسول کو تعزیت پیش کیا ساتھ ہی امسال زائرین کی تعداد میں گذشتہ سال سے کافی اضافہ پایا گیا چونکہ مجمع کثیر کود یکھنے سے پتہ چلتاتھا پانی وچائے وغیرہ کا بھی نظم اچھا تھا بانیان کے جذبہ خلوص کو تمام مومین کرام نے سراہا اور بہت دعاؤں سے نوازہ اس کی اطلاع سید ہادی حسن، مرزا امتیاز حیدرصاحب نے دی ہے ۔