وزیر اعظم کا پولینڈ اور یوکرین دورہ

تاثیر  ۱۹   اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

وزیر اعظم نریندر مودی کل یعنی 21 اگست سے پولینڈ اور یوکرین کے دورے پر ہوں گے۔ 21 اگست کو وزیر اعظم نریندر مودی کا  ایک روزہ پولینڈ دورہ 1979 میں مرار جی ڈیسائی کے دورہ کے بعد 40 سالوں میں کسی ہندوستانی وزیر اعظم کا پہلا دورہ ہے۔ سابق وزرائے اعظم جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی نے مرارجی دیسائی سے پہلے پولینڈکا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد پی ایم مودی کا مجوز ہ کیو  دورہ(یوکرین ) ان کے روس کے دورے کے تقریباً ایک ماہ بعد ہو رہا ہے۔ پی ایم مودی کا روس دورہ مغربی ممالک کو پسند نہیں آیا تھا۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ یوکرین نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کرک کے علاقے میں ایک اسٹریٹیجک روسی قصبے پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔ اب دنیا پوچھ رہی ہے کہ کیا پی ایم مودی دونوں کے درمیان جنگ بندی کروا پائیں گے؟  فرسٹ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، بھارت  اور پولینڈ کے درمیان طویل عرصے سے دوستانہ تعلقات اور اقتصادی وابستگی رہی ہے۔ ہندوستانی سیاسی قیادت ستمبر 1939 میں دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں جرمن حملے کے خلاف پولینڈ کی جدوجہد کی بھرپور حمایتی تھی۔ سفارتی تعلقات 1954 میں قائم ہوئے اور 1957 میںوار سوں میں ہندوستانی سفارت خانہ کھولا گیا۔ کمیونسٹ دور میں دو طرفہ تعلقات قریبی اور خوشگوار تھے۔باقاعدہ اعلیٰ سطح کے دورے ہوتے تھے، جس میں 1955 میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کا دورہ بھی شامل تھا۔
اپریل 2009 میں ہندوستانی صدر پرتیبھا پاٹل نے پولینڈ کا دورہ کیا تھا۔ وہیں ستمبر 2010 میں پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے بھارت کا دورہ کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت مسلسل بڑھ رہی ہے اور 2023 میں یہ تجارت 5.72 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ پولینڈ کو بھارت کی بڑی برآمدات میں چائے، کافی، مصالحے، ٹیکسٹائل، دواسازی، مشینری اور آلات، آٹو پارٹس اور سرجیکل اشیاء شامل ہیں۔ پولینڈ میں بھارت کی درآمدات میں مشینری، پلاسٹک میٹیرل، فیرس دھاتیں، مشینی اوزار اور دفاعی اشیاء شامل ہیں۔ ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز، وپرو ٹیکنالوجیز، زینسر اور ویڈیوکون جیسی بھارتی کمپنیاں پولینڈ میں پہلے سے ہی کام کر رہی ہیں۔  2019 میںبراہ راست نان اسٹاپ پروازیں بھی شروع ہوئیں۔بھارت نے دسمبر 1991 میں یوکرین کو ایک خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کیا تھا۔کیو نے    بھارتی سفارت خانہ مئی 1992 میں کھولا گیا ، جس میں ایک دفاعی ونگ بھی شامل تھا۔ یوکرین بھارت اور پاکستان کے ذریعہ دو طرفہ شملہ معاہدے کی بنیاد پر جموں و کشمیر کے مسئلے کے حل کی حمایت کرتا ہے۔ یوکرین اقوام متحدہ کے ڈھانچے میں اصلاحات کی بھی حمایت کرتا ہے ۔ دونوں کے درمیان تجارت سے متعلق کئی سمجھوتے ہوئے ہیں۔یہ ایرو انڈیا 2021 کے دوران، یوکرین نے نئے ہتھیاروں کی فروخت کے ساتھ ساتھ بھارتی مسلح افواج کے ساتھ سروس میں موجود اسلحوں کے میٹینینس اور اس کے اپڈیشن کے لئے بھارت کے ساتھ  530 کروڑ روپے کے چار معاہدے پر دستخط بھی کئے۔
یوکرین اور بھارت میں ایک کمیشن ہے، جو مشترکہ بزنس کونسل کے اجلاسوں کا اہتمام کرتا ہے۔ 2022 میں بھارت نے یوکرین کو 743 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ کی۔ اہم اشیاء پٹرولیم، پیک شدہ ادویات اور نشریاتی آلات تھے۔ دیگر اجناس دھاتیں اور معدنیات، تمباکو کی مصنوعات، چائے، کافی، مصالحے، ریشم اور جوٹ تھیں۔ یوکرین نے  بھارت کو 1.08 ارب ڈالر کی برآمدات کی۔ اہم مصنوعات بیج کا تیل، نائٹروجن کھاد، کیمیکلز، اور سمندری اور ہوائی جہاز کے انجن تھے۔  گزشتہ 5 سالوں میں یوکرین کا بھارت کو   برآمدات  14.3 فیصد کی سالانہ شرح سے کم ہوئی ہیں۔ یوکرین نے سستا روسی تیل خرید کر منافع کمانے کے لئے  بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس نے کہا ،’’غیر جانبدار ہونے کا دکھاوا کرنا روس کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔‘‘ لیکن حکومت ہند نےاپنی ڈی۔ ہائفن پالیسی پر اصرار کرتے ہوئے یوکرین کو ضروری ادویات ، ضروری طبی آلات اور اسکول بسوں سمیت قابل قدر مقدار انسانی امداد فراہم کی ہے۔دریں اثنا،  بھارت نے یوکرین کو پاکستان میں بنے اسلحوں اور اور گولہ بارود کو یوکرین میں ٹرانسفر کرنے پر سخت اعتراض جتایا تھا۔ ان سب کے درمیان، پی ایم مودی کا دورہ ان دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کو کم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے، جو حال میں موجود ہے۔ پولینڈ اور یوکرین کے دورے سے پی ایم مودی کو بات چیت کرنے اور دوسرے فریق کی حرکات و سکنات خدشات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ بلاشبہ، امن تب ہی آسکتا ہے جب روس اور یوکرین دونوں میز پر بیٹھیں گے اور اپنے خوف اور خدشات کو ساجھا کریں گے۔
*******************