’’آر جی کرمیڈیکل کالج میں پیش آنے والا سانحہ دیکھ کر شاید ابلیس بھی آج رو رہا ہوگا‘‘

تاثیر  ۲۰   اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

مغربی بنگال کے شہر کولکاتا کے ایک مشہور ومعروف اسپتال آر جی کرمیڈیکل کالج میں ہونے والے انسانیت سوز واقعہ پر اس وقت پوری قوم غمگین اور افسردہ ہے۔ ظلم وزیادتی کے اس واقعے کو بیان کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں کولکاتا کے آر جی کرمیڈیکل کالج کی ۳۱سالہ ٹرینی ڈاکٹر کی انسانوں کے روپ میں درندوں نے عصمت دری کی اور اس کو زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کردیا ۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ انسان کا دل اس کو محض تصور کرتے ہی کانپ جاتا ہے، حقیقت میں سانحہ سے دوچار ہونے والی ٹرینی ڈاکٹر کے والدین اور گھر والوں کے دکھ اور تکلیف کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ بلا شبہ کسی بھی ملک اور قوم کے لئے اس قسم کے واقعات انتہائی شرمندگی کا باعث ہوتے ہیںکیونکہ یہ واقعات معاشرے کے زوال اور انحطاط کی نشاندہی کررہے ہوتے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک اور معاشرے میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جو پیش آیا ہے؟ اور کیا ہم یہ یقین کر سکتے ہیں کہ آئندہ اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آئیگا؟ ان دونوں سوالات کا جواب یقینا نفی میں ہے اور در حقیقت یہی ہمارا بڑا المیہ ہے۔ ملک میں مختلف اوقات میں اس طرح کے دل خراش واقعات سامنے آتے رہتے ہیںلیکن ان سانحات کے مجرموں کو پکڑ کر سزا نہیں دی جاتی ہے۔ جرائم کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن حکومت اور ریاست کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ مجرموں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچاتی ہے، معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کا یہی ایک آسان نسخہ ہے لیکن ہمارے یہاں کے حکومتیں اس میں مکمل ناکام نظر آتی ہیں کیونکہ یہاں اول تو مجرموں کو سرے سے پکڑا ہی نہیں جاتا اور اگر پکڑ بھی لیا تو ان کو کوئی سزا نہیں ہوپاتی اور چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اب جس ملک اور معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کو پکڑے جانے کا اور سزا پانے کا خوف ہی نہ ہو وہاں سے جرائم کا خطرہ کیسے ہوسکتا ہے۔

قارئین محترم !جب معاشرے جنگل بن جاتے ہیں تو انسان جانور بن جاتے ہیں، اور جب انسان جانور بن جاتے ہیں تو پھر کوئی عورت محفوظ نہیں رہتی، کوئی عورت زندہ نہیں رہتی۔ ہمارے ملک میں آج تک یہی ہوتا آرہا ہے اس پر ہمیں حیرت زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیںہے، اس لئے کہ ہمارا واسطہ ان لوگوں سے پڑگیا ہے جو ابھی تک اپنے آپ کو شکار کے دور کا انسان سمجھے بیٹھے ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہمارے شکاری ہمیشہ زندہ رہینگے یا انہیں اپنے کرتوتوں کا حساب نہیں دینا ہے؟ آر جی کرمیڈیکل کالج میں پیش آنے والا سانحہ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان میں ایک ہی شخص ملوث ہے جب کہ اس حرکت وسکنات میں کئی لوگوں کے ملوث ہونے کا اندیشہ ہے، مگر ان لوگوں کے جرم کرنے کے باوجود سزا تو دور کی بات ہے سرے سے پکڑا ہی نہیں جاسکا ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں آئے روز اس قسم کے سانحات پیش آتے رہتے ہیں، ان پر کچھ دن شور شرابہ ہونے کے بعد پھر خاموشی چھا جاتی ہے اور مجرم آزاد پھر رہے ہوتے ہیں۔ آخر کہاں ہیں وہ ادارے جو انسانیت کے نام پر بنائے جاتے ہیں اور لاکھوں اربوں کی مالیت جمع کرتے ہیں؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو قانون کے پاسداری کرتے نظر آتے ہیں؟کہاں ہیں وہ لوگ جو انسانیت کی خدمت کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ آر جی کرمیڈیکل کالج میں ہونے والے عصمت دری اور قتل کے افسوس ناک واقعہ اور اس جیسے کئی واقعات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، یہ سانحہ نہ صرف عوام کے لئے لمحہ فکریہ ہے بلکہ حکمرانِ وقت کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

اس وقت مغربی بنگال عصمت دری اور قتل جیسی انسانیت سوز سانحہ کی زد میں ہے، ایسے میں عوام کا مشتعل ہونا اور احتجاج کرنا ایک فطری بات ہے، البتہ اس احتجاج کا پرُامن ہونا انتہائی ضروری ہے ایسے میں جس کسی نے بھی اس گھنائونے جرم کوانجام دیا ہے یا پھر جو لوگ اس جرم میں برابر کے شریک ہیں ان سب کو قانون کے مطابق جلد از جلد سزا ملنا ضروری ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ احتجاج پورے ملک میں پھیل جائے اور پھر حکومت کیلئے اس کو قابو میں کرنا مشکل ہوجائے۔ حالانکہ عصمت دری کے ساتھ ساتھ قتل اس طرح کے واقعات پہلے بھی رونما ہوچکے ہیں لیکن کسی واقعے کے بھی ملزمان کو قانون کے قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا اور نہ اسے عبرت ناک سزا دی گئی کیونکہ ان واقعات میں کسی وزیر اعظم کی بیٹی یا کسی منسٹر کی بیٹی کے ساتھ یہ حادثہ یہ واقعہ پیش نہیں آیا ، کسی آئی جی یا کسی ڈی ایس پی یا کسی ڈی جی کے رشتہ داروں کے ساتھ پیش نہیں آیا۔ اگر ان واقعات کے رونما ہوتے ہی بے غیرت ملزموں کو ، بے حس مجرموں کو سر عام پھانسی دی جاتی ، بھرے بازار میں لٹکائے جاتے اور کڑی سے کڑی سخت سزائیں دی جاتیں تو شاید یہ دل دہلادینے والاواقعہ لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ آر جی کرمیڈیکل کالج میں پیش نہ آتا ۔ پورے ملک میں اس طرح کے واقعات کے تعداد کتنی ہے مجھے نہیں معلوم لیکن ان واقعات میں ملوث کسی مجرم کو سزا ملی یا نہیں کیونکہ ہمیشہ کی طرح اس واقعہ پر بھی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ملوث ملزمان کو جلد از جلد ڈھونڈ نکالینگے اور گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچائیںگے، مگر افسوس یہ ہماری حکومت کی ایک خواب ہی ہے۔ کاش ہمارا نظام عدم ایساہوتا کہ گھنائونے سے گھنائونے جرم میں ملوث اور بڑے سے بڑے مجرم کو نشانِ عبرت بنایا جاتا تاکہ معاشرے میں موجود مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کے دل میں ڈر پیدا ہوسکے اور جرائم کو روکا جاسکے۔

بہر حال ملک میں اب تو دن بدن عورتوں کیلئے ہر طرف صورتحال پریشان کن ہوتی جارہی ہے، عورتیں نہ گھر میں محفوظ ہیں ، نہ اسکول میں ، نہ کھیل کے میدان میں اور نہ اسپتال میں ، درندگی کا وائرس ہر طرف پھیل چکا ہے ۔ ان حالات میں ارباب اقتدار سے اور اربابِ اختیار سے اپیل ہے کہ خدارا ٹرینی ڈاکٹر کو جن کے ساتھ یہ گھنائونا سانحہ پیش آیا ہے جسے دیکھ کر شاید ابلیس بھی آج رو رہا ہوگا، اس کے گھر والوں کو انصاف فراہم کیا جائے، اس کے ملزم کو قانون کے کٹہرے میں لاکر کڑی سے کڑی سخت سزا دی جائے بلکہ ٹرینی ڈاکٹر کے قاتل کو سرِ عام پھانسی پر لٹکادیا جائے اور اس کے سپورٹرز اور معاونت کاروں کو بھی عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی اس طرح کی گھنائونی حرکت کرنے کا ارادہ نہ کرسکے۔

قیصر محمود عراقی

موبائل:6291697668