تاثیر ۲۵ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر کی 90 اسمبلی سیٹوں کے لئے تین مرحلوں( 18 ستمبر، 25 ستمبر اور یکم اکتوبر) میں پولنگ ہونی ہے۔ اس کے لئے متعلقہ سیاسی جماعتوں نے چناوی بساط پر اپنی اپنی چالیں چلنا شروع کر دی ہیں۔ اس میںعمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بالکل اسی طرح آمنے سامنے نظر آ رہے ہیں، جس طرح مایاوتی اور اکھلیش یادو اتر پردیش میں ہیں۔محبوبہ مفتی اور مایاوتی کی طرح اگر تقابلی طور پر دیکھا جائے تو عمر عبداللہ اور اکھلیش یادو کا کردار بھی یہاں یکساں نظر آتا ہے۔ یہاں ایک اور خاص بات نظر آئے گی کہ دونوں ریاستوں میں کانگریس کا کردار بھی مشترک ہے۔ جموں و کشمیر میں کانگریس عمر عبداللہ کی حمایت میں کھڑی ہے، بالکل اسی طرح جیسے وہ یوپی میں اکھلیش یادو کے ساتھ ہے۔ جس طرح مایاوتی 2019 کے عام انتخابات کے بعد ہر وقت اکھلیش یادو کو نشانہ بناتی رہتی ہیں، اسی طرح محبوبہ مفتی بھی عمر عبداللہ کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
ماضی کی بہت سی باتوں کو بھلا کر اکھلیش یادو اور مایاوتی نے 2019 کے عام انتخابات کے دوران یوپی میں اتحاد کیا تھا اور اسی طرح جموں و کشمیر میں عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی ایک ساتھ تھے، لیکن اب صورتحال یوں ہوا ہے کہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی مخالف لگنے لگی ہیں۔ جس طرح یوپی میں جنگ کا براہ راست اثر کانگریس اور بی جے پی پر پڑتا ہے، بالکل وہی صورتحال جموں و کشمیر میں نظر آتی ہے۔ محبوبہ مفتی بھی عمر عبداللہ کا نام لے کر بالواسطہ طور پر کانگریس کو نشانہ بنا رہی ہیں، حالانکہ یوپی میں مایاوتی براہ راست کانگریس لیڈر راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی پر حملہ کرتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہیں وہ چیزیں، جو اس کے اثر کا ممکنہ نتیجہ ہیں، یعنی عمر عبداللہ پر محبوبہ مفتی کے حملے اور اس کے بعد ہونے والے جوابی حملے کا براہ راست فائدہ کس کو ہے؟
عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ نیشنل کانفرنس کا منشور صرف انتخابی وعدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ اگلے 5 سال کی حکمرانی کا مکمل روڈ میپ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ صرف وہی کام کیے جائیں جو پورے کیے جا سکیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ پی ڈی پی نے ان کی پارٹی کے منشور کی نقل کی ہے۔ انتخابی ریلی میں عمر عبداللہ کی شکایت ہے کہ سب نے ہمارے منشور کی نقل کی ہے، کچھ فرق ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے اقتدار میں آنے پر 200 یونٹ مفت بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور انہوں نے (پی ڈی پی) بھی کہا تھا کہ وہ 200 یونٹ دیں گے۔ہم نے کہا تھا کہ پہلے سال میں ایک لاکھ سرکاری نوکریاں دیں گے، ہم نے اسے اپنے منشور میں شامل کیا۔ عمر عبداللہ بتاتے ہیں کہ ایل او سی کو دوبارہ کھولنے کی بات ہے، جو ان کے منشور میں بھی ہے۔ہم نے بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے کی بات کی اور وہ بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ میرے ساتھیوں نے ہمارے منشور میں جو کچھ رکھا ہے انہوں نے بھی وہی رکھا ہے، باقی سیاسی اختلافات اپنی جگہ، لیکن عمر عبداللہ کی بات کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔
اِدھرپی ڈی پی کے منشور کو جاری کرتے ہوئے، محبوبہ مفتی نے کہا تھا، ہم چاہتے ہیں کہ ایل او سی کے اس پار عوام کے درمیان رابطہ ہو۔ہم چاہتے ہیں کہ پاک مقبوضہ جموں کشمیر میں شاردا پیٹھ کا راستہ کھولا جائے تاکہ کشمیری پنڈت وہاں جا سکیں، ہم مفاہمت اور باہمی گفتگوچاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ محبوبہ مفتی نے جماعت اسلامی پر سے پابندی ہٹانے، ان کی جائیدادوں کے حوالے کرنے کی کوششیں کرنے اور جیلوں میں بند لوگوں کو مفت قانونی امداد فراہم کرنے جیسے انتخابی وعدے بھی کیے ہیں۔ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ 370 جموں و کشمیر اور باقی ملک کے درمیان ایک پل تھا، لیکن اب یہ ختم ہو گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے علیحدگی پسندوں کو جیل میں ڈال دیا ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے اپنے لیڈر اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے ایڈوانی نے یاسین ملک، شبیر شاہ اور میر واعظ فاروق سے ملاقات کی تھی۔ انہیں جیل میں ڈالنا مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہے۔ یہ مسئلہ ابھی تک زندہ ہے۔ورنہ انجینئر رشید جیت نہیں پاتے۔
دوسری جانب قائد حزب اختلاف راہل گاندھی اور کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کی جموں و کشمیر آمد کے ساتھ ہی پی ڈی پی کے سینئر لیڈر نعیم اختر کا بیان سامنے آیا ہے، جس میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے ان کا موقف کافی مثبت دکھا ہے۔ کانگریس لیڈر کے حوالے سے نعیم اختر کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی جموں و کشمیر سے جڑے مسائل کے حل کے لئے ایک موثر آواز بن سکتے ہیں اور ایسی صورت حال میں جموں و کشمیر میں وسیع اتحاد کا امکان ہے۔ اس سے پہلے یہ خبریں آرہی تھیں کہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے درمیان اتحاد مشکل میں ہے، جیسا کہ یوپی میں اکھلیش یادو کے ساتھ ابتدائی مرحلے میں دیکھا گیا تھا، کیونکہ نیشنل کانفرنس اپنی خواہش کے مطابق کانگریس کو زیادہ سیٹیں دینے کو تیار نہیں تھی۔ لیکن پھر وہ دونوں اکٹھے ہو گئے اور کھلے عام اپنے باہمی معاہدے کا انکشاف کیا۔دراصل مایاوتی کانگریس اور بی جے پی کے بارے میں یہ کہتی رہی ہیں کہ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، ایک ناگناتھ اور دوسرا سانپ ناتھ، لیکن مایاوتی جس طرح سے اپنے امیدواروں کو الیکشن میں کھڑا کرتی ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بی ایس پی سے زیادہ کسی اور کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے۔ مایاوتی پر یوپی میں بی جے پی کی مدد کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ محبوبہ کی سیاست میں بھی مایا وتی والی ہی خوبیا ں نظر آتی ہیں۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی محبوبہ مفتی جموں و کشمیر میں اسی راستے پر چل رہی ہیں، جو یوپی میں مایاوتی کا رہا ہے ؟ اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔