سنجولی مسجد معاملہ ایک دہائی سے زیر التواء کیوں ؟

تاثیر  ۱۱  ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ کے سنجولی بازار میں مسجد کی مبینہ غیر قانونی تعمیر کو لے کر مظاہرین کل شام سےپرسکون ہیں۔  علاقے میں پولیس فورس کی تعیناتی کے درمیان حالات معمول پر آرہے ہیں۔دکانیں بھی کھل رہی ہیں۔ مسجد کا راستہ بھی کھل گیا ہے۔  تاہم بدھ کی شام تقریبا00:4 بجے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولس کو دوبارہ سختی اختیار کرنی پڑی تھی۔ اس سے قبل جھڑپ میں تین پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔ علاقے میں احتیاط کے طور ابھی بھی بڑی تعداد میں پولس عملے تعنیات ہیں۔مسجد کے خلاف ہندتووادی تنظیموں کے مظاہرہ کےپیش نظر شملہ پولیس نے کل صبح 4 بجے سے ہی سنجولی کے 10 کلومیٹر کے دائرے میں کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لئے مورچہ سنبھال لیا تھا۔ساتھ ہی 20 کلومیٹر دور شوگی میں بھی ناکہ بندی کر دی گئی تھی۔ دوسری جانب ہندو تنظیموں کے لوگ ڈھالی کے قریب کل دن بھر احتجاج کر تے رہے۔ جس کی وجہ سے ڈھالی سے سنجولی تک سڑک بند کردی گئی تھی۔اس سے قبل کی رات گئے پولیس نے فلیگ مارچ بھی کیا تھا۔ اس دوران لوگوں کا امن کا پیغام بھی دیا۔کل بدھ کی صبح بھی معمول کے مطابق لوگ ڈیوٹی اور دیگر کاموں کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔ لیکن سنجولی میں لوگوں سے زیادہ پولیس نظر آ رہی تھی۔لوگ بتا رہے تھے کہ اسمبلی کے مانسون اجلاس کے دوران تعینات پوری پولیس فورس کو اب سنجولی میں ہی تعینات کر دیا گیا ہے۔کل بدھ کی صبح 7 بجے سے رات 11.59 بجے تک ضلع انتظامیہ نے سنجولی کے علاقے میں انڈین سول ڈیفنس کوڈ کی دفعہ 163 نافذ کر دی تھی۔ تاکہ لوگ ہتھیار کے ساتھ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکیں۔ اس دوران چھوٹا شملہ میں ریاستی سیکریٹریٹ کی سیکورٹی بھی بڑھا دی گئی تھی ۔ دوسری جانب سنجولی سے ایک کلومیٹر دور نوبہار چوک پر بھی ناکہ بندی کر دی گئی تھی، جو کل دیر رات تک جاری رہی۔
سنجولی مسجد کے تنازع کے بعد کارپوریشن کورٹ میں پچھلے دنوں معاملے کی سماعت ہوئی۔ بعد ازاں کیس کی سنوائی کے لئے نئی تاریخ دے دی گئی۔ اس کے بعد ہندو تنظیموں نے 11 ستمبر کو سنجولی میں دوبارہ مظاہرے کی کال دی تھی۔ اس سے پہلے یہاں 3 ستمبر کو بھی ایک ہنگامہ خیز مظاہرہ ہوا تھا۔ اس نئے اعلان کے بعد ہی شملہ پولیس نے سنجولی کو چھاؤنی میں تبدیل کر دیاتھا۔ اس دوران کل دن میں اس وقت حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے ،جب سنجولی مسجد کی تعمیر کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین نے پولیس کی جانب سے لگائے گئے بریکیٹس توڑ کر مسجد کی جانب بڑھنے لگے اور پتھراؤ شروع کردیا۔ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کےلئے لاٹھی چارج کیا۔۔ تفصیلات کے مطابق ہزاروں مظاہرین ڈھلی ٹنل پہنچے اور یہاں پولیس کی جانب سے لگائے گئے بیریکیٹس کو ہٹاکر سنجولی مسجد کی طرف بڑھنے لگے۔پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی۔ جس کے بعد بھیڑ نے پولیس پر پتھراؤ کردیا۔ پولیس نے بھی کارروائی کرتے ہوئے بھیڑ پر لاٹھی چارج کیا۔ اس میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا ہے۔ پولیس کی جانب سے شہر میں سیکوریٹی کے سخت انتظامات کئے تھے۔ تاہم مظاہرین نے بیریکٹس کو توڑ کر مسجد کی جانب بڑھنے کی کوشش کی ،جس کے بعد حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔
  سنجولی مسجد تنازعہ کی آگ کو شملہ سے تقریباََ 100 کلومیٹردور مغرب جانب واقع نالہ گڑھ تک پنہنچا دیا گیا ہے۔ وہاں ہندو تنظیموں کے لوگ مسلمانوں کے خلاف عوام کو بھڑکانے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔وقف املاک کے خلاف عوام کے دل و دماغ میں زہر بھرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں دیو بھومی سنگھرش سمیتی نے نالہ گڑھ کے ایس ڈی ایم کے توسط سے وزیر اعلیٰ کو ایک میمورنڈم سونپا ہے۔ سنگھرش سمیتی کا کہنا ہے کہ بیرونی ریاستوں سے آنے والے ایک خاص فرقہ کے لوگ اپنی شناخت چھپا کر ہماچل میں رہ رہے ہیں، جن میں بڑی تعداد بنگلہ دیشی روہنگیا کی ہے، جس کی وجہ سے دیو بھومی ہماچل کی ہم آہنگی بگڑ رہی ہے اور ساتھ ہی یہاں کے جمہوری تانے بانے میں بڑے پیمانے پر تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے، جو کہ تشویشناک ہے۔ ہندو تنظیموں کا کہنا ہے کہ بیرونی ریاستوں سے مستقل طور پر آباد کرنے والے خود کو منظم کر کے ایک مافیا کے طور پر کام کر رہے ہیں، جس میں یہ لوگ غیر قانونی طور پر سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے مساجد، مدرسے اور اس طرح کے دیگر کاموں کا اڈہ بنا رہے ہیں۔
  سنجولی مسجد تنازعہ پر کابینہ کے وزیر وکرمادتیہ سنگھ نے پریس کانفرنس میں کہا ہے،’’ سنجولی میں جو واقعہ ہوا ہے؛  وزیراعلیٰ نے اسمبلی میں اس پر سختی سے اپنا موقف پیش کیا ہے۔وہ عوام کے جذبات کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔مسجد کی تعمیر سے متعلقہ کیس گزشتہ 10 سالوں سے ایم سی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ معاملے کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہئے۔قانون کا فیصلہ آنے کے بعداسی کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ غیر قانونی تعمیرات پائی گئی تو اسٹرکچر کو گرا دیا جائے گا۔ ہماچل میں امن کا ماحول ہونا چاہیے۔ قومی سطح پر غلط تصویر دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مجھے سناتنی اور ہندو ہونے پر فخر ہے۔ میں بھگوان رام کا آشیرواد لینے ایودھیا گیا تھا، لیکن قانون کا اپنا عمل ہے۔‘‘
اِدھر کچھ غیر جانبدار لوگوں کا کہنا ہے کہ ہماچل پردیش میں کانگریس کی حکومت ہے۔کانگریس کے لوگ نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، لیکن مسجد تنازعہ کے معالے میں ریاستی حکومت کے چند وزراء کی جو بولیاں سننے کو ملتی رہی ہیں، وہ کانگریس کے دعوؤں سے میل نہیں کھاتی ہیں۔ ریاستی وقف بورڈ یہ کہہ رہا ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی مسجد کی اراضی وقف بورڈ کی ملکیت ہے۔ جبکہ ہندتو وادی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ زمین محکمہ جنگلات کی ہے۔ایسے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیوں نہیں ہو پا رہا ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ 10 برسوں سے یہ معاملہ شملہ ایم سی کورٹ میں اب تک پنڈنگ ہے ؟  اگر وقف بورڈ اپنے دعوے کی حمایت میں دستاویزی شواہد پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ، معاملہ وہیں رفع دفع ہو جائے گا۔بصورت دیگر بورڈ کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کے لئے اس کے ذمہ داروں کی سرزنش ضرور ہونی چاہئے۔
****