بی جے پی کا پریشان ہونا فطری ہے

تاثیر  ۲۸  ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

سننے میں آ رہا ہےکہ بھارتیہ جنتا پارٹی پچھلے چند دنوں سے خود کو پریشانیوں سے گھری محسوس کر رہی ہے۔ابھی جو مسئلہ اس کے سامنے ہے، اس کو حل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے ، لیکن اس کے طویل مدتی نتائج کے بارے میں فکرمند ہونا تو فطری ہے۔ بی جے پی کے لئے ابھی سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ این ڈی اے کے اتحادیوں نے بھی’’ ہندوتو‘‘ کی لکیر پر چلنا شروع کر دیا ہے۔بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ تو اچھی بات ہے کہ اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں بھی بی جے پی کے ’’ہندتو وادی‘‘ نظریے کی تقلید کر رہی ہیں، لیکن بات اتنی ہی نہیں ہے۔بی جے پی کے لوگ اس پارٹی کے مستقبل کے لئے بہتر نہیں مان رہے ہیں۔پارٹی کے اندر کی خبر رکھنے والوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ اتحادیوں کا ’’ہندتو وادی‘‘ نقش قدم پر چلنا  بی جے پی کوہضم نہیں ہو رہا ہے۔
  یہ بات پورا ملک جانتا ہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ایودھیا رام مندر کے افتتاح کے تقریباً آٹھ ماہ بعد، رام مندر کی تعمیر کے لیے پی ایم نریندر مودی کو تعریفی خط لکھا ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنے خط میں اپنی حکومت کے اس منصوبے کا ذکر کیا ہے، جس میں انہوں نے سیتامڑھی کے پنورا دھام ، جسے ماں سیتا کی جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے، کو ترقی دینے کا ذکرکیاگیا ہے۔خط میں اسی جگہ کو براہ راست ریل سروس سے جوڑنے کا مطالبہ وزیر اعظم سے کیا گیا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق جب سے نتیش کمار نے رام مندر کی تعمیر کی ستائش کے ساتھ مذکورہ تیرتھ استھل کو فروغ دینے اور اسے ریل سروس سے جوڑنے کے لئے وزیر اعظم کو خط لکھا ہےبہار بی جے پی میں سر اسیمگی پیدا ہو گئی ہے۔بی جے پی لیڈروں کا خیال ہے کہ نتیش کمار اور ان کی پارٹی جے ڈی یو نے لوک سبھا انتخابات میں صرف بی جے پی کے’’ ہندوتو‘‘کے زور پر غیر متوقع کامیابی حاصل کی تھی۔ اب ای ’’ہندوتو‘‘ کے نام پر نتیش کمار بی جے پی کے ووٹ بینک کو توڑنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ بہار بی جے پی کے لوگوں کا سوچنا ہے کہ رام مندر کی تعمیر کے بعد سے آج تک نتیش کمار نے جب کبھی ’’ہندتووادی‘‘ نظرئے  کی کھل کر حمایت کی بات نہیں کی تو پھر آج اس طرح کی باتیں کرنے کا کیا سبب ہو سکتا ہے۔گزشتہ آٹھ ماہ سے اتحادی ہونے کے باوجود وہ رام مندر کے نام پر خاموش رہے۔ ایسے وقت میں جب بی جے پی نے بھی رام مندر پر بحث کرنا بند کر دیا ہے، نتیش کمار کے اچانک تعریفی خط نے  بی جے پی کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ اخبارنے اپنی رپورٹ میں بی جے پی کے ایک رہنما کے حوالے سے لکھا ہے کہ اب جبکہ نتیش کمار رام مندر کی تعمیر کی تعریف کر رہے ہیں، پارٹی کو دیکھنا ہو گا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب آندھرا پردیش کے سی ایم این چندرا بابو نائیڈو جو ایک ٹیکنوکریٹ سی ایم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہیں اپنے سابقہ دور حکومت میں حیدرآباد کو سائبر آباد بنانے کا سہرا جاتا ہے۔ انہیں ملک میں ان کی ٹیکنالوجی پر مبنی طرز حکمرانی کے لیے دیکھا جاتاہے۔ لیکن چندرا بابو، جنہوں نے حال ہی میں آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنی نئی اننگز کا آغاز کیا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس بار اپنی’’ ہندوتو‘‘ حامی شبیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے تروپتی مندر پر جانوروں کی چربی کی ملاوٹ والے گھی کے لڈو بنانے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان کے حریف وائی ایس جگن موہن ریڈی کی حکومت کے دوران تروپتی مندر میں تقسیم کیے جانے والے لڈو میں جانوروں کی چربی ملا ئی جاتی تھی۔ دراصل نائیڈو نے ایک تیر سے دو شکار مارے ہیں۔تروپتی تنازعہ پر نائیڈو نے بنیادی طور پر جگن موہن ریڈی کو نشانہ بنایا ہے۔ دوسرا، طویل مدت میں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہندو حمایت کی بنیاد کو برقرار رکھنے کی وجہ سے، بی جے پی ریاست میں اپنی توسیع کو زیادہ تیزی سے نہیں بڑھا پائے گی۔ تروپتی بالاجی لڈو گھوٹالے سے پہلے بھی پون کلیان ہندوؤں کے معاملے پر اپنا سخت رخ دکھاتے رہے ہیں۔ لیکن’’ تروپتی پرسادم‘‘ میں جانوروں کی چربی کی ملاوٹ کے معاملے پر وہ اپنے این ڈی اے کے ساتھیوں سے زیادہ آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ پون کلیان کی جن سینا پارٹی آندھرا پردیش حکومت میں ٹی ڈی پی کے ساتھ چھوٹے بھائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن سینا پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے پون کلیان حکومت میں نائب وزیر اعلیٰ ہیں۔پون کلیان کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ بی جے پی کے بہت قریب ہیں ساتھ ہی وہ ریاست میںایک معتبر ہندو چہرہ بن کر ابھر رہے ہیں۔
  لڈو تنازعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد، اداکار سے سیاستداں بنے پون کلیان نے مندروں سے متعلق تمام مسائل کی تحقیقات کے لیے سناتن دھرم رکھشا بورڈ کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ مطالبے میں کہا گیا ہے کہ اس بورڈ کا کام جامع ہونا چاہیے، جس میں مندروں کی بے حرمتی، اراضی کے مسائل اور دیگر مذہبی رسومات وغیرہ شامل ر ہیں۔ یہی نہیں، پون کلیان کا کہنا ہے کہ لڈو میں موجود نجاستوں سے شدید تکلیف ہونے کی وجہ سے، انھوںنے گنٹور کے دشاوتار وینکٹیشور سوامی مندر میں 11 دن کی تپسیا شروع کرنے کا اعلان کیا ۔نائب وزیر اعلیٰ نے وجئے واڑہ میں کنک درگا مندر کی سیڑھیاں دھوئیں۔ حال ہی میں، جے ایس پی لیڈر کو این ٹی آر کی طرح گلے میں زعفرانی رنگ کی شال پہنے دیکھا گیا۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی ریاست میں اپنی جڑیں جمانے کی تیاری کر رہی ہے، مگر سیاسی مبصرین کا سوال ہے کہ اگر جے ڈی یو، ٹی ڈی پی اور جن سینا جیسی پارٹیا ں’’ ہندتو‘‘ کا کارڈ کھیلنے لگیں تو بی جے پی کے پاس کیا رہ جائے گا ؟ اگر ایسا ہو تا رہا تو وہ دن دور نہیں ہوگا، جب بی جے پی کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں بچے گا اور وہ ریاستوں میں تیسرے اور چوتھے نمبر کی پارٹی بن کر رہ جائے گی۔ اس تصور سے بی جے پی کا پریشان ہونا فطری ہے۔