تاثیر ۵ ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
زندگی میں بیشتر ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جن میں انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے۔دل چاہتا ہے کہ فوری طورپر انتقامی کارروائی کی جائے۔ممکن ہے اس سے ذہنی و قلبی سکون ملے؛ مگر اسلام نے جذبات میں آکر کسی فیصلہ کی اجازت نہیں دی ہے۔ تمام ایسے مواقع پر، جہاں انسان عام طورپر بے قابو ہوجاتا ہے، شریعت نے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے ، عقل وشعور سے کام لینے اور واقعات کے بارے میں سوچنے اور غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے۔اسی کو قرآن کی اصطلاح میں ”صبر“ کہاجاتا ہے۔ قرآن میں ” صبر“ مختلف معانی میں استعمال کیا گیا ہے۔اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ برائی کرنے والوں کی برائی اور بدخواہ لوگوں کے قصور کو معاف کیا جائے۔ارشادِ باری ہے: ـ’’اور بھلائی اور برائی برابر نہیں، اگر کوئی برائی کرے تو اس کا جواب اچھائی سے دو،پھر تو تیرے اور جس کے درمیان دشمنی ہے وہ ایساہوجائے گا گویا دوست ہے ۔‘‘(سورہ فصلت: 34)
بلا شبہہ غصہ اوراشتعال شیطانی اثر ہے۔شیطان انسان کو مختلف تدابیرکے ذریعہ ابھارنا چاہتا ہےتاکہ وہ جذبات میں آکر کوئی ایسا کام کربیٹھے جو اس کے لئے دور رس نقصانات کا باعث بنے۔ اسی لیے قرآن نے ہمیشہ عفو و درگزر کی تعلیم دی ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ معاف کرنے والوں کے لیے آخرت میں بڑا اجر ہے۔ بدخواہ اور حاسدین دنیا میں جتنا چاہیں تمسخر اور مذاق اڑالیں، ایک دن ضرور ان کو اپنے کیے ہوئے پر افسوس کا اظہار کرنا ہوگا۔ اس مفہوم پر مشتمل متعدد آیات قرآن میں نازل کی گئی ہیں، جن میں مختلف پیرا یہ سے جذباتیت کے بدلے حقیقت پسندی، غصہ اور اشتعال کے بجائے صبر و تحمل اور انتقامی کارروائی کی جگہ بردباری اور قوتِ برداشت کی صفت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ صبر کا راستہ جنت کا راستہ ہے۔ کسی ناخوشگوار واقعہ پر نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھنا شیطانی راستہ ہے اور شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔چنانچہ اس سے جہاں تک ہوسکے پرہیز کرنا چاہئے۔
خلافِ مزاج کسی واقعہ پر جب انسان بے قابو ہوجاتا ہے تو تمام شرعی رکاوٹیں اس کے لئے بے اعتبار ہوجاتی ہیں اور وہ غصہ کی حالت میں جو چاہتا ہے کرڈالتا ہے۔ اس لئے بعض احادیث میں غیظ و غضب سے دور رہنے کی تاکید کی ہے۔مشہور عالمِ دین مولانا محمد ادریس میرٹھی غصہ کی قباحت اور اس کے تباہ کن اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:”حقیقت یہ ہے کہ اچھے سے اچھا سمجھدار انسان بھی شدید غصہ کی حالت میں عقل و خرد سے خارج اور بالکل پاگل ہوجاتا ہے۔ نہ خدا ورسول کی تعلیمات کا ہوش رہتا ہے۔نہ اخلاق و انسانیت کے تقاضوں کا۔ اسی لیے کہا گیا ہے: ’’غصہ تھوڑی دیر کی دیوانگی کا نام ہے‘‘۔ بعض مرتبہ شدتِ غیظ و غضب سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے یا مستقل طورپر وہ پاگل ہوجاتا ہے اور یہ تو بالکل عام بات ہے کہ غصہ فرو ہونے کے بعد انسان خود کو اپنے کیے پر ملامت کیا کرتا ہے۔اس غصہ کے بھوت پرقابو پانا صبر و ضبط کا ملکہ پیدا کیے اور برداشت و تحمل کی عادت ڈالے بغیر ممکن نہیں ہے۔“ (شرح ریاض الصالحین: 135)
کسی شخص کی کامیابی اور بلندی کا راز یہ ہے کہ انتہائی جذباتی مواقع پربھی انتہائی عقل و دانش سے فیصلہ کرے۔ انفرادی زندگی میں تحمل اور صبر و ضبط کی ضرورت تو ہے ہی، لیکن اس کی اہمیت اجتماعی جگہوں میں مزید بڑھ جاتی ہے، جہاں مختلف اذہان اور طبیعت کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اکثر موقعوں پر تمام ذہنوں کی رعایت نہیں کی جاسکتی۔ اس میں بعض کی موافقت ہوگی تو بعض کی مخالفت بھی۔ساتھ رہتے ہوئے بہت سی ناموافق باتیں بھی پیش آتی ہیں۔کبھی مزاجوں کا اختلاف دل شکنی کا باعث ہوتا ہے تو کبھی کسی کی تنقید سے خفت اٹھانی پڑتی ہے۔ بلکہ قدم قدم پر ہزار امتحانی راہوں سے گزرنا پڑتا ہے۔اگر تحمل اور صبر و ضبط سے کام نہ لیا جائے تو ایک دن بھی اجتماعی جگہوں میں شریک رہنا مشکل ہوگا۔ اس لئے مسائل سے نجات پانے اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لئے ضرورت ہے کہ جذبات کو ہمیشہ قابو میں رکھا جائے۔
طائف کا واقعہ کسے یاد نہیں ہے، بڑی تمنا اور آرزووٴں کے ساتھ اہل مکہ سے تنگ آکر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا سفر کیا کہ شاید وہاں کے لوگ کچھ موافقت کریں؛ مگر وہ لوگ چار قدم اور آگے نکلے۔صرف گالی اور تمسخر پر اکتفا نہیں کیا گیا؛ بلکہ اوباشوں کے ذریعہ اتنے پتھر برسائے گئے کہ قدمِ مبارک خون سے بھیگ گئے، ضعف و کمزوری سے طبیعت بوجھل ہوگئی۔ آپ تھک کر جب بیٹھ جاتے تو زبردستی آپ کو اٹھایا جاتا اور پھر پتھروں کی بارش برسائی جاتی۔ اس اندوہناک حادثہ سے عرش پہ کہرام مچ گیا، عذاب کے فرشتے نازل کیے گئے؛ مگر نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا: اگر ان لوگوں نے ایمان قبول نہیں کیا تو مجھے امید ہے کہ ان کی نسلیں ضرور اسلام سے وابستہ ہوں گی۔اس صبر و ضبط کی کیا دنیا کوئی مثال پیش کرسکتی ہے؟ اور یہ معاملہ صرف یہیں تک نہیں ہے، دشمنوں سے انتقام کا سب سے بڑا موقع فتح مکہ کا تھا۔ دشمن اس دن مکمل آپ کے قابو میں تھے۔ اگر آپ چاہتے تو ایک ایک اذیت کا بدلہ لے سکتے تھے۔ مگر آپ نے یہ کہتے ہوئے سب کو معاف فرمادیا :” تم پر کوئی ملامت نہیں جاوٴ تم سب آزاد ہو“
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی صبر و تحمل سے لبریز ہے۔ کسی بھی موقع پر آپ نے جذبات کا استعمال نہیں کیا۔لہٰذا، ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام شعبہ ہائے حیات میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے۔آقا اپنے ملازم کے قصور اور لغزشوں کو معاف کرے اور اگر وقتی طورپر کبھی آقا ناراض ہوجائے تو ملازم کو بھی اسے برداشت کرنا چاہئے۔باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹااپنے باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرے۔میاں بیوی میں خلش ایک فطری بات ہے؛ مگر اسے باہمی صبرو تحمل سے دور کرتے ہوئے زندگی کو خوش گوار بنانے کی کوشش کی جائے۔ غرض پرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے صبر و تحمل اور قوتِ برداشت بنیادی عنصر ہے۔ ہماری پستی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم وقتی طورپر جذبات کے رَو میں بہہ جاتے ہیں، جس سے دور اندیشی متأثر ہوتی ہے اور غور و فکر کا مزاج نہیں رہتا ہے۔ موجودہ حالات میں خاص طورپر سیرتِ نبوی کے اِس پہلو کو اپنانے کی سخت ضرورت ہے۔
***************