سوِل سوسائٹی کو سامنے آنا چاہئے

تاثیر  15  اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

  آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سیاست کے کھلاڑیوں نے دیر سویر یوپی کے بہرائچ ضلع کو فرقہ وارانہ تشدد کی آگ میں جھونک ہی دیا۔ اس بار بھی وہی گھسا پٹا بہانہ بنایا جا رہا ہے۔الزام لگایا جا رہا ہے کہ دیوی دُرگا کی مورتی کے وِسرجن جلوس پر ایک فرقہ کے لوگوں نے سنگ باری کر دی۔پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا سے وابستہ بیشتر لوگ اس معاملے کو کچھ اس انداز سے توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں ، جیسے ایک خاص فرقے کے لوگ ہاتھ میں پتھر اٹھائے پہلے سے ہی وِسرجن جلوس کا انتظار کر رہے تھے۔ پرچار یہ کیا جا رہا ہے کہ وسرجن جلوس میں شامل لوگ پر امن طریقے سے آگے بڑھ رہے تھے، لیکن جیسے ہی جلوس کثیر مسلم آبادی والے علاقے میں داخل ہوا لوگ اپنی چھتوں سے جلوس پر پتھر برسانے لگے۔یہاں تک کہ دیوی دُرگاکی مورتی کو بھی نقصان پہنچا۔ساتھ ہی یہ بات بھی پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ جلوس میں شامل لوگوں کو آگے اور پیچھے سے گھیر کر مارنے کا اعلان آس پاس کی مسجدوں سے بھی کیا گیا۔ جلوس پر سنگ باری کے ساتھ ساتھ فسادیوں کے ذریعہ گولی باری بھی کی گئی، جس میں رام گوپال مشر نام کے ایک شخص کی گولی لگنے سے موت ہو گئی۔ اسی کے بعد پورا علاقہ فرقہ وارانہ فساد کی آگ میں جلنے لگا۔
میڈیا کے ذریعہ چلائی جا رہی بیشتر خبریں پڑھنے اور سننے سے یہی لگتا ہے کہ اس فساد کے واحد ذمہ دار متاثرہ علاقے کے مسلمان ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ سڑک کی دونو طرف مسلمانوں کے گھر ہیں۔ان گھروں کی چھت پر اینٹوں، پتھروں اور کانچ کے ٹکڑوں کو جمع کرکے پہلے سے رکھا گیا تھا۔ یعنی پر امن مورتی وسرجن جلوس پر پور ے منظم ڈھنگ سےیکطرفہ حملہ کر نے کی تیاری پہلے سے کی گئی تھی۔کچھ میڈیا والے تو یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ ہندوؤں کے مورتی جلوسوں پر سنگ باری کے معاملے میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’ملک میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ بی جے پی صرف ہندو ووٹوں کے زور پر اقتدار میں ہے۔ اس کے باوجود، ہندو تہواروں جیسے رام نومی پر رتھ یاترا ؤں، ترنگا یاترا ؤں اور وِسرجن جلوسوں پر ملک بھر میں بڑے پیمانے پر پتھراؤ اور بم دھماکے ہوتے ہیں۔‘‘ اسی رپورٹ میں لکھنؤ کے ایک صحافی کے بیان کے حوالےسے کہا گیا ہے کہ’’ جب بہرائچ فسادات کی خبروں کے درمیان درگا وِسرجن جلوس میں ایک شخص کی موت کی خبر سنی تو مجھے لگا کہ یہ بنگلہ دیش کی خبر ہوگی۔ یہ بھی درست ہے کہ بنگلہ دیش میں اس قسم کا تشدد ہوتا ہے، اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ وہاں کی حکومت ہندوؤں کو نشانہ بناتی ہے۔ لیکن جب ہمارے اپنے ملک سے ایسی خبریں آتی ہیں تو لگتا ہے کہ یہ کہیں انتظامیہ کی غفلت ہے۔رپورٹ میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ ڈھنگ سے بہت سی با توں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سال گنپتی وسرجن کے دوران ملک بھر سے پرتشدد واقعات کی اطلاعات ملی ہیں۔ گجرات، مہاراشٹر، اتر پردیش، چھتیس گڑھ، دہلی سمیت کئی ریاستوں میں گنیش وسرجن کے دوران حملے کئے گئے۔ ایسے حملوں کی تعداد کم از کم 17 کے لگ بھگ تھی۔ مغربی بنگال میں رام نومی کے جلوسوں پر شدید حملے ہوئے، لیکن ہم نے محسوس کیا کہ یہ ممتا بنرجی حکومت کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ لیکن اتر پردیش جیسی ریاست میں، جس طرح حملہ آوروں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں، وہ افسوسناک ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے حملے صرف پولیس کی دہشت کی بنیاد پر ختم نہیں ہونے والے ہیں۔ جتنی سختی کی جائے گی اتنا ہی انتشار پھیلے گا۔‘‘حالانکہ حقیقت کیا ہے ، مسلمانوں پر الزام عا ئد کرنے والے بھی شاید اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔تاہم اسی ماحول میں سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کا ایک بیان سامنے آیا ہے، جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ماحول خراب کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ہر کسی کو سکیورٹی کی ضمانت دی گئی ہے، لیکن شرپسندوں اور جن کی لاپرواہی سے یہ واقعہ پیش آیا ہے،ان کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کی ہدایات افسروں کو دی گئی ہیں۔ سی ایم یوگی مبینہ طور پر فائرنگ میں ، مارے گئے رام گوپال مشرا کے اہل خانہ سے مل کر اظہار افسوس کر رہے ہیں اور انھیں اس بات کی یقین دہانی بھی کر رہے ہیںانھیں انصاف ملے گا۔‘‘
کاش سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کو یہ بات معلوم ہوتی کہ مورتی وسرجن جلوس یا کسی دوسرے ہندو تہوار کے موقع پر شوبھا یاترائیںخاص طور پر جب کسی کثیر آباد مسلم علاقے سے گزاری جاتی ہیں، توعموماََ جلوس میں شامل لوگوں کا انداز کتنا جارحانہ ہوتا ہے، لاؤڈاسپیکر سےکتنے بھدّے گانے بجائے اور کتنے اشتعا ل انگیز نعرے لگائے جاتے ہیں۔ اتنا نہیں تو کم سے کم یوگی جی اس وائرل ویوڈیو کو ہی دیکھ لیتے ، جس میںگوپال مشرا ایک مسلمان کی چھت کی رلنگ سے بندھےہرے رنگ کے ایک جھنڈے کو’’ بجرنگ بلی کی جے ‘‘ نعرہ لگاتے ہوئے  رلنگ  سمیت نوچ کرپھینکتا اور اس کی جگہ پر بھگوا جھنڈا لہراتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ فساد سے متعلق پھیلائی جا رہی یکطرفہ خبروں اور غیر  ذمہ دار انہ بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ اس فساد کے مکمل طور پر علاقے کے مسلمان ہی ذمہ ہیں۔ ہاں ،سی ایم یوگی نے علاقہ کے ذمہ دار پولس افسران کے خلاف بھی کارروائی کی ہے، توواقعی ہی یہ اچھی بات ہے ، لیکن تہوار وں بالخصوص مورتی وسرجن کے موقع پر جب کچھ شر پسند عناصر، سماجی یکجہتی او ر بھائی چارے کے ماحول میں مذہبی منافرت کا زہر گھولنے کے لئے ہمیشہ تیار ہی بیٹھے رہتے ہیں، تو پھر ایسے میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ کم سے کم تہواروں کے موقع پر متعلقہ حساس علاقوں میں قانون و انتظام کو پہلے سے ہی ٹو ٹائٹ کرکے کیوں نہیں رکھا جاتا ہے ؟
ویسے حقیقت خواہ جو ہو، کچھ لوگوں کی نظریں اس فساد کے سیاسی پہلو پر بھی ہیں۔ اتر پردیش کی 9 اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخابات کے لئے 13 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ بی جے پی اتر پردیش میں لوک سبھا انتخابات میں متوقع کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی۔ ظاہر ہے پارٹی قائدین اس پر بہت پشیمان ہیں۔ خاص طور پر یوگی آدتیہ ناتھ نے اسے وقار کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ان ضمنی انتخابات کو وہ 2027 کے اسمبلی انتخابات کے سیمی فائنل کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔اس کے علاوہ پڑوسی ریاست بہار اور جھارکھنڈ میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ چنانچہ ووٹوں کو پولرائزڈ کرنے کے مقصد سے ہجومی تشدد کا ماحول پیدا کرکے بہرائچ کو فساد کی آگ میں جھونکنے کے منصوبے پر عمل کیا گیا ۔ یہ آگ جلد سرد ہو ، اس کے لئے سول سوسائٹی کو کھل کر سامنے آنا چاہئے۔