جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز میں مہجری اردو فکشن پر یک روزہ سیمنار کا انعقاد

تاثیر  10  اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

نئی دہلی10 اکتوبر (پریس ریلیز)جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ہندوستانی زبانوں کے مرکز اور ‘ورلڈ اردو ایسوسی ایشن’ نئی دہلی کے اشتراک سے ‘ مہجری فکشن:مسائل موضوعات اور اسالیب’ کے موضوع پر یک روزہ سیمنار کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں کل نو مقالے پیش کئے گئے۔ ڈاکٹر رضوان الحق نے اکیسویں صدی میں مہجری ادب کی ضرورت اور معنویت پر بھر پور روشنی ڈالی جب کہ نثار احمد نے ناول’ بالکونی’کے حوالے سے ہجرت اور کرب کے درد انگیز روداد کو پیش کیا۔مقصود الٰہی شیخ کے افسانوں میں مہجری ادب کے تحت نوید رضا نے ان کے افسانوں کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ پیش کیا، اسی طرح دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر محمد اشرف اور اسعد اللہ،ریسرچ اسکالر جے این یو نے روبینہ فیصل کے ناول’ نارسائی’ کا تجزیاتی مقالہ پیش کرتے ہوئے ناول کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔جب کہ شہلا کلیم اور ظہور احمد نے روبینہ فیصل کی افسانہ نگاری اور ان کی تحریروں میں نسائی آواز کو تلاش کرتے ہوئیمقالہ پڑھ کر داد و تحسین وصول کیا۔رافعہ شبنم نیمہجری فکشن کے حوالے سے رضیہ فصیح احمد کی افسانہ نگاری اور انورادھا ورما نے جرمنی میں مقیم انور ظہیر رہبر کے فکشن پر تحقیقی مقالہ پیش کرتے ہوئے افسانہ اور فکشن کی فنی باریکیوں کا محاکمہ کیا۔اس پروگرام کی صدارت کر رہے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ آج کا یہ پروگرام اردو میں مہجری ادب کے حوالے سے ہے اس کا سلسلہ عربی سے شروع ہوا جسے الادب المہجر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔دنیا بھر میں اس پر بحث جاری ہے حکومتیں شدت کے ساتھ اس پر کام کر رہی ہیں۔مہجری ادب سے مراد وہ ادب ہے جہاں ادیب ہجرت کرکے مستقل طور پر اسی ملک کی شہریت اختیار کر لیتے اور زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ان کی تحریروں میں حب الوطنی، پردیس میں رہنے کا دکھ، ہجرت کا درد وکسک، شناخت کا مسئلہ ان کے ناولوں، افسانیاور تخلیقات میں واضح طور پر موجود ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ عارضی قیام اور مستقل قیام کا مسئلہ الگ ہے اس پر ابھی تحقیق ہونا باقی ہے کہ آیا انہیں شامل کیا جانا چاہیے یا نہیں۔” قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے بھی بحیثیت مہمان خصوصی اس پروگرام میں شرکت کی اور طلبا سے مخاطب ہوئے انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں اس ادارہ کی بدولت ہوں جے این یو میں ہمیشہ بحث و مباحثے کی فضا سازگار رہی ہے یہاں کے طلبا اساتذہ کو بھی پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں وجہ یہ ہے کہ سوالات کرنے کی یہاں آزادی ہے۔اپنے طالب علمی کے دور کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں ڈاکٹر توحید خان صاحب ہم طلبا کی نہ صرف ادبی تربیت کرتے تھے بلکہ اسی طرح کے ادبی پلیٹ فارم مہیا کراتے تھے جس سے ہماری ادبی سرگرمی جاری رہتی تھیں۔ میں اس اہم پروگرام کے لئے آپ سبھوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور قومی کونسل ہر طرح کے تعاون کے لئے حاضر ہے۔”