یوگی آدتیہ ناتھ کے نعرے ’’بٹیں گے تو کٹیں گے ‘‘ کو اتر پردیش کی 9 اسمبلی سیٹوں کے ضمنی انتخابات میں لٹمس پیپر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا دعوی ٰ ہے کہ حال ہی میں ہریانہ میں ہوئے اسمبلی انتخابات میںاسی نعرے نے بی جے پی کو جیت دلائی تھی۔ اب اس کی بازگشت مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ یوپی ضمنی انتخابات کے موقع پر گلی کوچے اور چوک چوراہوں پر یہ نعرہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ جب سے آر ایس ایس نے اس نعرے کو اپنی حمایت دیدی ہے تب سے کچھ لوگ یہ ماننے لگے ہیں کہ 2027 میں ہونے والے یوپی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی اسی نعرے کے ارد گرد گھومتی ہوئی نظر آئے گی۔
بلا شبہہ اتر پردیش میں 9 سیٹوں پر ہونے والے اسمبلی ضمنی انتخابات حکمراں بی جے پی کے لیے بہت اہم ہیں۔ تاہم، لوک سبھا انتخابات میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی اپوزیشن، خاص طور پر سماج وادی پارٹی ضمنی انتخابات میں نہ صرف بی جے پی کو للکارتی ہوئی نظر آرہی ہے بلکہ ایک بار پھر اپنی شاندار کارکردگی کو برقرار رکھنے کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ اِدھر یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا ہریانہ انتخابات میں دیا گیا نعر ہ اس بار یوپی کے ضمنی انتخابات میں چناوی ہتھیار کے طور پر اپنا کام کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی موجودہ سیاست جہاں انکاؤنٹر سے لے کر پولیس حراست میں ہونے والی اموات کی بنیاد پر یوگی حکومت کو گھیرنے میں لگی ہے وہیں یوگی کے اس جارحانہ نعرے کی ناؤ پر سوار ہوکر بی جے پی ضمنی انتخابات کی بیترنی کو پار کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ کہاجا رہا ہے کہ یوپی کے وزیر اعلیٰ نے ہریانہ انتخابات کے درمیان یہ نعرہ دے کر ذات پات سے اوپر لاکر تمام ہندوؤں کو اپنے حق میں جوڑنے کی کامیاب کوشش کی تھی۔اسی کا نتیجہ تھا کہ وہاں امید کے خلاف لگاتار تیسری بار بی جے پی کی حکومت بن گئی۔ اس الیکشن میں سنگھ کی فعالیت کو بھی جیت کا بڑا فیکٹر مانا جا رہا ہے، وہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں یوپی کی سر زمین پر سنگھ اگر اسی طرح فعا ل رہتا یوگی آدتیہ ناتھ کی اتنی فضیحت نہیں ہوتی۔ اب یوپی اسمبلی ضمنی انتخاب میں بی جے پی کا بیڑہ پار لگانے کی پوری ذمہ داری یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کے اسی نعرے پر ہے۔ چنانچہ یوگی آدتیہ ناتھ کو اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کے لئے اس نعرے سے بہتر کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔پارٹی کے حکمت عملی ساز بھی یہ مان رہے ہیں تمام ہندوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے اس مجرب نعرے سے بہتر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ بی جے پی کے ہم خیال لوگوں کا کہنا ہے کہ سماج وادی پارٹی نے جس طرح سے ریاست میں انکاؤنٹر اور پولس حراست اموات کے حوالے سے ذات پات کو لے کر جس طرح سے آواز اٹھائی ہے، اس کا مقابلہ صرف اور صرف یہی نعرہ کر سکتا ہے۔ بی جے پی کو بھی یہ یقین ہے کہ آج کے سیاسی ماحول میں محض اسی طرح کے نفرتی نعر ے اسے اچھے انتخابی نتائج دلا سکتے ہیں۔
دریں اثناء متھرا میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ میں سنگھ کے کارگزار سربراہ دتاتریہ ہوسبولے نے پچھلے دنوں اس نعرے کی حمایت کرکے اس کو آگے بڑھانے کا اشارہ کر دیا ۔دراصل سنگھ کا ماننا ہے کہ ہندو سماج کو متحد کرنا شروع سے ہی سنگھ کا مقصد رہا ہے۔ سنگھ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ شروع سے ہی سنگھ کا یہ نظریہ رہا ہے کہ ملک کے ہندوؤں کو متحد ہونا چاہیے۔ ملک منقسم ہوگا تو ہندو سماج کو نقصان ہوگا۔ چنانچہ سب سے اہم کام یہ ہے کہ معاشرہ کو کسی بھی حال میںمنقسم نہیں ہونے دیا جائے۔ دوسری طرف ایسی بات بھی چرچا میں ہے کہ آنے والے دنوں میں سنگھ لوگوں کے درمیان جائے گا اور انھیں ذات پات سے اوپر اٹھنے اور صرف ’’ہندتو‘‘ کے نام پر ایک پلیٹ فارم پر آنے کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کی مہم چلائے گا۔
در اصل سنگھ اپنے صد سالہ سالِ تاسیس کے دوران خاص طور پر ہندی بیلٹ میں اپنے ابتدائی دور سے شروع کئے گئے مدعوں کو کسی بھی طرح سے بکھرنے نہیں دینا چاہتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے جاری بی جے پی کی ’’ذات پات توڑو، ہندوؤں کو جوڑو‘‘ مہم کو کامیاب بنانے میں سنگھ کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ سنگھ نے خاص طور پر پسماندہ، درج فہرست ذاتوں اور انتہائی پسماندہ یہاں تک کہ پس ماندہ بنواسی سماج تک اپنی پہنچ بنائی ہے۔ 2014 میں بی جے پی کے حکمت عملی ساز وں نے تمام ہندوؤں کو متحد کرکے انتخابی کامیابی حاصل کرنے میں جو کردار ادا کیا تھا، اسے بھلا کیسے بھولا جا سکتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے شیرازہ بندی کی کوشش میں دھیرے دھیرے کمی آتی گئی اور اس کا نتیجہ 2019 اور 2024 کے انتخابات میں سب کے سامنے آ گیا۔ اب بی جے پی اور خاص طور پر سنگھ کے تھنک ٹینکوں کو یہ لگنے لگا ہے کہ انتخابی میدان میںصرف ترقی اور آمدنی میں اضافے کے وعدوں کی بات کرنے سے لوگ پارٹی سے جذباتی طور پر نہیں جڑ پا رہے ہیں۔ سنگھ کے نظریہ ساز سوربھ مالویہ کا ماننا ہے کہ’’ ہندوستانی ثقافت، تہذیب اور سناتن وایات کو محفوظ رکھنا ہر ہندو کا فرض ہے۔ ہندو مذہب رہے گا تو عالمی بھائی چارہ اور عالمی انسانیت خوش رہے گی۔ یہی ہمارا طریقہ بھی ہے۔ ہندو سماج کو سیاسی موقع پرستی کے برے اثرات کے باوجود متحد رہنا چاہئے۔ ہم نے ہندو سماج کے کمزور ہونے اور پھر ٹوٹ کر بکھرنے کی تاریخ دیکھی ہے۔ ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہماری وہ تاریخ پھر کبھی خود کو دہرا سکے۔ہم ہندو سماج کو جوڑ نے کے کام میں مسلسل لگے ہوئے ہیں۔ہماری کوشش کا بہتر نتیجہ ایک دن سب کے سامنے آئے گا۔ ‘‘ اس طرح یوگی آدتیہ ناتھ کے نعرے ’’بٹیں گے تو کٹیں گے ‘‘ کا استعمال صرف چناوی میدان میں نہیں کیا جارہا ہے بلکہ اس کے ذریعہ قومی سطح پر ہندو بھائیوں کی شیرازہ بندی کی مسلسل مہم چلانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی پہل ہو چکی ہے، جبکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے برعکس نظریہ رکھنے والے سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ اس ملک کے جمہوری نظام کے سامنے کوئی بھی نفرتی اور تفریقی نظریہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتاہے۔