تاثیر ۸ اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
جموں و کشمیر اور ہریانہ میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج میں ایک طرف این سی اورکانگریس اتحاد نے جموں و کشمیر میں اکثریت حاصل کی ہے تو دوسری طرف ہریانہ میں بیک فٹ پر موجود بی جے پی نے خلاف توقع شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ 90 سیٹوں میں سے 48 سیٹیں حاصل کرکے ہریانہ میں ہیٹریک لگانے جا رہی ہے۔ درحقیقت ہریانہ کے انتخابی نتائج نے ملک بھر کے سیاسی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا ہے۔ تمام ایگزٹ پول، بڑے انتخابی پنڈت، ہریانہ سیاست کے ماہرین کی تمام پیشین گوئیاں اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔سیاسی تجزیہ کاروں اور صحافیوں کا اندازہ تھا کہ ہریانہ میں کانگریس کی سونامی چلے گی اور ایگزٹ پول کے اعداد و شمار نتائج میں تبدیل ہوں گے۔ اس دعوے کے پیچھے ان کا استدلال یہ تھا کہ ریاست میں بی جے پی کے خلاف ماحول ہے اور یہاں کے ووٹر تبدیلی چاہتے ہیں۔ لیکن منگل کو جب انتخابی نتائج آئے تو ایک الگ تصویر دیکھنے کو ملی۔چنانچہ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی نہ صرف اپنے بل بوتے اکثریت کے لئے مطلوبہ تعداد 46 سے 2 زائد یعنی 48 سیٹیں حاصل کر لی ہیں۔ جبکہ کانگریس کا دعویٰ تھا کہ وہ ریاست کی 10 سالہ بی جے پی حکومت کے خلاف مبینہ زبردست اینٹی انکمبنسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 60 سے زیادہ سیٹیں حاصل کرے گی۔
ہریانہ کے نتائج سامنے آنے کے بعد ریاست کی سینئر لیڈر کماری شیلجا کو بھی یہ کہنا پڑا ہےکہ کہاں ہم 60 سے زیادہ سیٹوں کی بات کر رہے تھے اور دیکھتے دیکھتے ہم کہاں آ گئے۔ ان کا یہ طنزیہ اشارہ سابق وزیر اعلیٰ بھوپیندر سنگھ ہڈا کی جانب تھا، جنھوں نے اس بار وزیر اعلیٰ کی ریس میں نہ صرف خود کو سب سے آگے رکھا تھابلکہ ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی اپنے لوگوں کو آگے رکھا تاکہ لیجسلیچر پارٹی کے ذریعہ بحیثت وزیر اعلیٰ خود کو منتخب کرانے میں کوئی دشواری نہیں ہو۔ سیاسی مبصرین بتاتے ہیںکہ بھوپیندر سنگھ ہڈاکی اسی سیاسی چپقلش نے کماری شیلجا سمیت پارٹی کے دوسرے کئی لیڈروں کو انتخابی مہم سے اچھی طرح سے جڑنے نہیں دیا۔بہر حال ہریانہ کے نتائج ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ عوام نے ان دعوؤں اور دلیلوں کو بھی اتنی اہمیت نہیں دی ،جن کی بنیاد پر کانگریس نے اپنی انتخابی مہم چلائی تھی۔ ہریانہ میں انتخابی مہم کے دوران کانگریس نے بنیادی طور پر فوجیوں کے لیے اگنیویر منصوبہ ، کسانوں سے متعلق مسائل، مہنگائی، بے روزگاری کے ساتھ ساتھ آئین کو درپیش خطرات اور دلت برادری کے ساتھ ساتھ سماج کے دیگر طبقات کے لیے ریزرویشن کا مسئلہ بھی اٹھائے رکھا تھا۔ کانگریس کو امید تھی کہ جس طرح لوک سبھا انتخابات کے دوران ان مسائل کا زبردست اثر ہوا اور ریاست کی 10 سیٹوں میں سے 5 اس کے کھاتے میں آگئیں، اسمبلی انتخابات میں بھی کچھ ایسا ہی ہوگا، لیکن اس صورتحال کا مقابلہ کرنے میں کوئی کو رکسر باقی نہیں رکھی ۔ اس نے 2005 سے 2014 تک ہریانہ میں بھوپیندر سنگھ ہڈا کی قیادت والی حکومت کے کام کاج پر خوب حملہ کیااور عوام کے ذہن میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب رہی کہ کانگریس کی حکومت ریاست کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ، وزیر اعلیٰ نایاب سنگھ سینی اور ہریانہ بی جے پی کے تمام بڑے لیڈروں نے ہڈا حکومت کے دوران ’’خرچوں اور پرچیوں‘‘ کو بلند آواز میں اٹھایا۔ ’’خرچوں اور پرچیوں‘‘ کا براہ راست مطلب کرپشن اور اقربا پروری ہے۔ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی نے پورے شد و مد سے یہ بات کہی کہ ہڈا حکومت کے دور میں دلتوں پر مظالم ڈھائے گئے۔
دوسری جانب جموں و کشمیر میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے حتمی نتائج کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو سب سے پہلے یہی کہا جائے گا کہ وہاں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد کی حکومت بننے جا رہی ہے۔مرکز کے زیر انتظام اس خطے میں 10 سال بعد ہوئے انتخابات ہوئے ہیں۔ اس بار کے انتخابات کے سلسلے میں جو بھی اگزٹ پولز آئے تھے ان سے یہی لگ رہا تھا کہ کسی بھی جماعت یا اتحاد کو اکثریت حاصل نہیں ہونے جا رہی ہے۔ چنانچہ یہاں جوڑ توڑ کی سیاست کا بازار گرم رہے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد نے اکثریت کا ہندسہ عبور کر لیا ہے۔ نیشنل کانفرنس نے 42 اور کانگریس نے 6 سیٹیں جیتی ہیں۔ سی پی ایم کو بھی ایک سیٹ ملی ہے۔ پی ڈی پی کو صرف تین سیٹیں ملی ہیں۔ پہلی بار آپ نے بھی ایک سیٹ جیت کر اپنا کھاتہ کھولا ہے۔ آزاد امیدواروں کو 6 سیٹیں ملیں۔ نیشنل کانفرنس کو اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی ملی ہے۔ اس نے اپنی اتحادی جماعتوں کانگریس اور سی پی آئی (ایم) کے ساتھ 49 سیٹیں جیتیں۔ بی جے پی نے اس الیکشن میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے جموں خطے میں 29 سیٹیں جیت کر اہم اپوزیشن پارٹی بن گئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ عمر عبداللہ ریاست کے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ چیف فاروق عبداللہ نے سری نگر میں اپنی رہائش گاہ پر اپنے حامیوں کا استقبال کیا۔وہ پہلے سے کہتے رہے ہیں کہ کشمیر کےلوگ تبدیلی چاہتے ہیں ۔ انتخابی نتائج کے بعد بھی وہ یہی کہہ رہے تھے کہ عوام نے نیشنل کانفرنس اور ہمارے منشور پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور لوگ محسوس کرتے ہیں کہ نیشنل کانفرنس ہی ان کے مسائل حل کر سکتی ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق نائب وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر کویندر گپتا بھی خوش ہیں۔ ان کو اندازہ تھا کہ بی جے پی کو کم سے کم 35 سیٹیں ملیں گی، لیکن جتنی ملی ہیں ، وہ بھی کم نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے لوگ جانتے ہیں کہ ہم دہشت گردی سے سیاحت کی طرف اور گولیوں سے بیلٹ کی طرف بڑھ چکے ہیں،جس کا نتیجہ آج نظر آرہا ہے۔
بہر حال جموں و کشمیر اور ہریانہ میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے یہ باور کرا دیا ہے کہ اگزٹ پولز کی اہمیت محض دل کو بہلانے کے خیال سے زیادہ کچھ ہو یا نہیں ہو ، لیکن اس کی اتنی اہمیت تو ہے ہی کہ عنقریب ہی جھارکھنڈ اور مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کا تجزیہ ان کے تناظر میں کیا جائے گا ۔ ساتھ ہی ان نتائج میں لمحہ بہ لمحہ آئے نشیب و فراز کو بھی کافی دنوں تک یاد رکھا جائے گا۔