تصادُم کے راستے میں جوکھِم زیادہ

تاثیر  16  اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

جموں و کشمیر کو پانچ سال بعد پہلا وزیر اعلیٰ مل گیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے کل 16 اکتوبر کو وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا۔ انہوں نے دوسری بار وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا ہے۔ جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بننے کے بعد وہ ریاست کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔حالانکہ نیشنل کانفرنس کی اتحادی کانگریس ان کی حکومت میں شامل نہیں ہوئی ہے۔ یعنی ریاست میں ’’انڈیا‘‘کی حکومت نہیں بنی ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ اگر دونوں پارٹیوں نے مل کر الیکشن لڑا تھا تو حکومت میں بھی دونوں کو ساتھ رہنا چاہئے تھا۔ مگر چناوی سیاست کے ماہرین کانگریس کے اس فیصلے کو ایک گیم پلان کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کانگریس کی نظر ابھی مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات پر ہے۔ کانگریس اعلیٰ کمان کبھی نہیں چاہے گی کہ وہ کسی بھی طرح سے خود کو گھیرنے کا  کوئی موقع بی جے پی کو دے۔
  ویسے عمر عبداللہ کی حلف برداری سے قبل بھی ، کانگریس کی عمر عبداللہ حکومت میں شمولیت سے سلسلے میں بڑا سسپنس تھا۔پھرآہستہ آہستہ خبریں آنے لگیں کہ پارٹی حکومت میں شامل نہیں ہوگی۔ قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ شاید نیشنل کانفرنس اور کانگریس میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔، لیکن کل کی حلف برداری تقریب میں بہت کچھ واضح ہو گیا۔ چونکہ کانگریس کو عمر عبداللہ حکومت میں شامل نہیں ہونا تھا، اس لئے نہیں ہوئی ۔ اس فیصلے کے سلسلے میں پارٹی خواہ جو بھی وجہ بتائے، لیکن اصل وجہ مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات ہیں۔ ماہرین مانتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ پارٹی بعد میں حکومت میں شامل ہو جائے، لیکن مذکورہ دو اہم ریاستوں میں انتخابات سے پہلے قطعی نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اگر وہ حکومت کا حصہ بنتی ہے تو نیشنل کانفرنس کے انتخابی منشور کے بہانے مذکورہ دونوں ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کو اسے گھیرنے کا بڑا موقع مل سکتا ہے۔ کانگریس مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ میں نیشنل کانفرنس کے انتخابی وعدوں کا براہ راست نقصان نہیں اٹھانا چاہتی ہے۔ ہریانہ انتخابات میں جیتتے جیتتے ہار جانے کے صدمے سے پارٹی ابھی تک باہر نہیں نکل پائی ہے۔ اب وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی بھی طرح کا کوئی خطرہ مولنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اپنے انتخابی منشور میں نیشنل کانفرنس نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی بحالی کے لیے کوشش کرنے، سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے اور پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے)کو منسوخ کرنے جیسے وعدے کئے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کو آگے بڑھانا ہے۔ جموں و کشمیر کے لیے علیحدہ پرچم اور آئین کی بحالی کا کام کرنا ہے۔ یہ وعدہ بھی ہے کہ شنکراچاریہ پہاڑ اور ہری پروت قلعہ کے درمیان ایک روپ وے چلایا جائے گا۔ روپ وے چلانے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اصل تنازعہ ان کے نام پر ہے۔ نیشنل کانفرنس نے اپنے منشور میں شنکراچاریہ پہاڑی کو’’ تخت سلیمان‘‘ اور ہری پروت قلعہ کو’’ کوہ ماران‘‘ کا نام دینے کا وعدہ کیا ہے۔دوسری جانب کانگریس کو یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ جموں و کشمیر انتخابات کے دوران بھی بی جے پی نے نیشنل کانفرنس کے منشور کے حوالے سے کس طرح سے گھیر لیا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے خود اپنی ریلی میں کہا تھا کہ ان کا منشور دیکھ کر پاکستان بہت خوش ہے۔ وزیر اعظم نے پاکستان کے وزیر خواجہ آصف کے اس بیان کا حوالہ دیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کی بحالی کے معاملے پر نیشنل کانفرنس اورکانگریس اتحاد کا موقف پاکستان کے موقف سے ملتا جلتا ہے۔ایسے میںاگر کانگریس عمر عبداللہ کی حکومت میں شامل ہوتی تو  ظاہر ہےنیشنل کانفرنس کے انتخابی منشور کے بہانے بی جے پی کو مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے انتخابات میں اسے گھیرنے کا موقع مل جا تا۔  ہریانہ انتخابات میں شکست کے بعد کانگریس کوئی بھی ایسا موقع بی جے پی کو نہیں دینا چاہتی ہے، جس سے بی جے پی فائدہ اُٹھا لے۔ وہ اپنا ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھا رہی ہے۔
اُدھر جموں و کشمیر میںعمر عبداللہ حکومت وجود میں تو ضرور آگئی ہے،لیکن اسے بھی کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔سب سے بڑا چیلنج ریاست میں لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ اختیارات کو مربوط کرنا ہے۔ کئی سالوں سے ریاست لیفٹیننٹ گورنر کے کنٹرول میں رہی ہے۔    فی الحال ریاست، ایک مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ ہے۔ جب تک اسے مکمل ریاست کا درجہ نہیں مل جاتا، وزیراعلیٰ کے ہاتھ بندھے رہیں گے۔ تاہم، عمر عبداللہ اور ان کی پارٹی نے انتخابات کے دوران عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت جموں و کشمیرکو مکمل ریاست کا درجہ دلائیں گے۔ ابھی ریاست میں نئی اسمبلی کی تشکیل کے باوجود اقتدار کا ایک بڑا حصہ لیفٹیننٹ گورنر کے ہاتھ میں ہی رہےگا۔ لیفٹیننٹ گورنر کے پاس پولیس اور امن و امان جیسے اہم معاملات پر کنٹرول ہوتا ہے، جو وزیر اعلی کے اختیارات کو محدود کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ریاست کے کام کاج کو بہتر ڈھنگ سے چلانے کے لئے عمر عبداللہ کو لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری کے بغیر اسمبلی میں کوئی قانون پیش نہیں کیا جا سکتا، جس سے حکومت کی کارکردگی متاثر ہو۔بیوروکریسی اور سرکاری تقرریوں پر بھی لیفٹیننٹ گورنر کا کنٹرول ہے۔ چنانچہ دہلی کی طرح ایل جی کے ذریعے جموں و کشمیر میں بھی مرکزی مداخلت کا امکان ہے۔حال ہی میں جموں و کشمیر پولیس سروس ریکروٹمنٹ رولز اور سول سروس رولز میں ترمیم کی گئی ہے ،جس کی وجہ سے منتخب حکومت کے اختیارات کو کم کر دیا گیا ہے۔ظاہر ہے اس سے عمر حکومت کے لیے نئے چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں۔ویسے حال ہی میں دہلی کے سابق وزیر اعلی اروند کیجریوال نے عمر عبداللہ کو مشورہ دیا ہے کہ اگر انہیں ’’آدھی ریاست‘‘ میں حکومت چلانے میں کوئی مسئلہ درپیش ہے، تو وہ ان سے مشورہ لے سکتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ نو سال تک دہلی کے وزیراعلیٰ رہے ہیں اور انہیں اس سلسلے میں اس کا کافی تجربہ ہے۔حالانکہ عمر عبداللہ نے حلف برداری سے قبل ہی یہ اشارہ دیا تھا کہ ان کی حکومت مرکز کے ساتھ ہاتھ ملا کر آگے بڑھے گی۔ ظاہر ہے تصادم کے راستے میں جوکھِم زیادہ ہے۔
********