فیصلہ سے پہلے سو بارسوچنا چاہئے

تاثیر  18  اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

گزشتہ چند برسوں سے وطن عزیز بھارت میں منائے جانے والے ہندو تہواروں کے دوران منعقد جلوس میں شامل ہجوم کے ذریعہ مساجد کے سامنے ہنگامہ برپا کرنے، تیز آواز میں ڈی جے پر توہین آمیز گانے بجانے اور ایک خاص فرقہ کے لوگوں کے خلاف اشتعال انگیزنعرے لگانے کے رجحان میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اس طرح کے حالات کی وجہ سے آئے دن کہاں کہاں اور کس طرح کے پر تشدد واقعا ت رونما ہوتے رہے ہیں، یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اسی درمیان پچھلے دنوں کرناٹک ہائی کورٹ کا ایک حیران کن فیصلہ آ یا ہے ، جس کے سلسلے میں عام رائے ہے کہ یہ فیصلہ انتہائی حیرت انگیز ہے۔ اس سے ملک میں مذہبی منافرت کا زہر پھیلا نے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔ یہ فیصلہ ملک کے جمہوری اقدار کے منافی ہے۔در اصل کرناٹک ہائی کورٹ کے جس فیصلے کے سلسلے میں اس طرح کا تبصرہ آ رہا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ ’’مساجد کے اندر جے شری رام جیسےمذہبی نعرے لگانےسے کسی کے مذہبی جذبات کے مجروح ہونے کا معاملہ نہیں بنتا ہے۔اسی آبزرویشن کے ساتھ کورٹ نے ایک مسجد کے اندر’’جئے شری رام‘‘ کا نعرہ لگا کر مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے الزام میں دو افراد کے خلاف عائد مجرمانہ الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ جسٹس ایم ناگاپرسنا کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس عمل سے امن عامہ میں خلل نہیں پڑا اور نہ ہی کسی مذہبی گروہ کو ٹھیس پہنچی۔اس خیال کے اظہا ر کے ساتھ اس کیس میں کیرتن کمار اور سچن کمار نام کے دو افراد ، جنھیں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی جن متعدد دفعات کے تحت پولیس الزامات کا سامنا کر رہے تھے، ان الزامات کو مسترد کر دیا گیا۔ پولیس رپورٹ کے مطابق دونوں نے پچھلے سال ستمبر میں رات کے وقت

ایک مسجد میں گھس کر وہاں موجود لوگوں کو’’جئے شری رام‘‘ کا نعرہ لگاکر انھیں خوف وہراس میں مبتلا کیا تھا۔
کورٹ کے مذکورہ فیصلے کو فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی سے تعبیر کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان سید قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے ذریعہ ایک مسجد میں ”جے شری رام“ کا نعرہ لگانے والوں پر سے مقدمہ خارج کرنا انتہائی افسوس ناک ہے، جس سے نہ صرف فرقہ پرست عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی، بلکہ اس طرح کی مذموم کوششوں کی بھی حمایت ملے گی۔بہرائچ کے مہسی اور دوسرے مقامات پر پولیس کی پشت پناہی میں درگا پوجا کے آخری دنوں میںہوئے ئے فرقہ وارانہ فسادات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کی سیاست سے ملک کے سماجی تانے بانے کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور آل انڈیا مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے ان فسادات کے لئے اترپردیش کی یوگی حکومت کو ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ ساتھ ہی یہ کہا ہے کہ متعلقہ ویڈیوز اور تصاویر کو دیکھنے سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یوپی پولیس بلوائیوں کی پشت پناہی کررہی ہے۔ اقلیتی آبادی پر حملہ کرنے والی بھیڑ میں کبھی پولیس آگے آگے اور دنگائی پیچھے پیچھے چل رہے ہیں جبکہ کبھی دنگائی پیچھے پیچھے اور پولیس آگے آگے چل رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہرائچ تشدد کے پس پردہ منصوبہ بند سازش اور انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔صدر مشاورت کا کہنا ہے کہ بہرائچ میں تشدد کی جو کارروائیاں ہوئیں وہ اتفاقی نہیں، منصوبہ بندکارروائیاں ہیں، پہلے فساد کرایا گیا اور اب بے گناہوں پر ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا نے اس ایک ویڈیو کو دیکھا ہے ، جس میں یہ صاف نظر آتا ہے کہ درگا پوجا کی مورتی وسرجن جلوس کے دوران ایک مسلمان کے گھر پر چڑھ کر اس پر موجود سبز مذہبی پرچم کو ہٹانا، بھگوا پرچم لہرانا اور جلوس کے ساتھ ڈی جے پر اشتعال انگیز گانا چلانا علاقہ میں فساد پھوٹ پڑنے کا سبب بنا ۔ اس لئے بنا کیونکہ پولیس نے شر پسندوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کی۔یوپی کی حکومت و انتظامیہ فساد پر قابو پانے میں ہنوزناکام ہے، لگاتار دوسرے تیسرے دن بھی اقلیتی علاقوں پر حملے ہوتے رہے۔ اسی دوران جمعرات کو ایک فرضی انکاؤنٹر میں پولیس نے دو مسلم نوجوانوں کو شدید زخمی کردیااور چند دیگر مسلمانوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ اس کے علاوہ اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یک طرفہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے حوالے سے ایڈوکیٹ فیروز احمد کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے۔اس میں اشتعال انگیزی کے ان ملزمین پر درج کردہ مقدمہ کو منسوخ کردیا گیا ہے، جنھوں نے ایک مسجد میں گھس کر جے شری رام کا نعرہ لگایا اور علاقے کی سماجی ہم آہنگی اور امن و قانون کو تباہ کرنے کی سازش کی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ عدالت کا یہ ریمارکس زیادہ قابل افسوس ہے کہ’’ مسجد کے اندر جے شری رام کا نعرہ لگانے سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوتے۔‘‘ ایڈوکیٹ فیروز احمد یہ مانتے ہیں کہ پولیس اور ججوں کے اسی رویے سے شرپسندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کا بھی یہی کہنا ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں رات کے دس بجے مسجد میں داخل ہوکر کچھ سرپھروں کے ذریعہ موجود لوگوں کو دھمکیاں دینے اور ”جے شری رام“ کا نعرہ لگانے کو ایک معمولی بات قرار دیا ہے۔ واضح ہو ’’جے شری رام“ کا نعرہ محض ایک مذہبی نعرہ نہیں ہے، بلکہ کچھ برسوں سے اس نعرے کو فرقہ وارانہ منافرت، کشیدگی، تصادم اور سماج میں انتشار پھیلانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ عدالتوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سا عمل کس مقصد کے تحت کیا گیا ہے اور کسی دوسرے طبقے کی عبادت گاہ میں دیر رات گئے داخل ہوکر نعرے لگانے کے پس پردہ کیا مقاصد کارفرما تھے۔ مسلمان ایک خدا کی عبادت اور بندگی کرتے ہیں اور وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، مساجد اسی کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کسی مندر یا کسی اور فرقہ کی عبادت گاہ میں داخل ہوکر نعرہ ”اللہ اکبر“ لگانے لگتا تو کیا وہاں موجود لوگ اسے برداشت کر لیتے؟ اور کیا اس وقت بھی عدالت کا فیصلہ یہی ہوتا؟ کئی دوسرے ماہرین اور امن پسند لوگوں کا بھی یہی ماننا ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف ہندو اکثریت کو نرمی فراہم کرتا ہے اور اشتعال انگیز ی اور توہین آمیز اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔کسی بھی عدالت کو اس طرح کا فیصلہ دینے سے پہلے اس کے ہر پہلو پر اسے سو بارسوچنا چاہئے۔
********