صلح و آشتی: اسلامی اخوت کا ضامن

تاثیر  24  اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

صلح و آشتی اسلام کے بنیادی اخلاقی اصولوں میں سے ایک ہے، جو افراد، خاندانوں، قوموں اور معاشروں کے درمیان اختلافات کو دور کر کے امن و سکون کی فضا قائم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں صلح و آشتی کو بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ انسانی تعلقات کو مضبوط کرنے اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔صلح سے مراد کسی تنازعہ یا جھگڑے کو بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنا ہے، جبکہ آشتی کا مطلب دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور باہمی محبت و بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔ دونوں کا مقصد ایک ایسا ماحول بنانا ہے، جس میں لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں اور تنازعات کے بجائے اتحاد و اتفاق سے زندگی گزاریں۔

اسلام میں صلح و آشتی کا تصور بنیادی ہے، اور اس کی وضاحت قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بار بار کی گئی ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اور اگر تمہارے درمیان جھگڑا ہو جائے تو صلح بہتر ہے‘‘(سورۃ النساء 4:128)۔یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، کیونکہ صلح جھگڑوں کا بہترین حل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صلح و آشتی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ تمہیں معلوم ہے کہ لوگوں کے درمیان صلح کرانا بہتر ہے؟‘‘یہ حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اسلام میں صلح کرنا، اختلافات کو دور کرنا، اور لوگوں کے درمیان محبت پیدا کرنا ایک اعلیٰ قدر ہے۔اسلام میں صلح و آشتی کے کچھ بنیادی اصول ہیں، جن کی پیروی کر کے معاشرتی تنازعات کو حل کیا جا سکتا ہے۔اسلام میں صلح کے دوران انصاف کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اگر صلح کے دوران کسی فریق کے ساتھ ظلم ہو تو وہ صلح پائیدار نہیں ہو سکتی۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اور اگر تم صلح کراؤ تو انصاف کے ساتھ کراؤ ‘‘ (سورۃ الحجرات 49:9)۔انصاف پر مبنی صلح ہی حقیقت میں کامیاب ہوتی ہے اور اس سے معاشرتی استحکام حاصل ہوتا ہے۔اسلام میں مشاورت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اختلافات کو حل کرنے کے لیے فریقین کو باہمی مشورے سے فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ دونوں فریق مطمئن ہوں اور صلح قائم ہو سکے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم مشورہ کرو، کیونکہ مشورے میں برکت ہے ‘‘۔باہمی مشورے سے ہونے والی صلح دیرپا اور پائیدار ہوتی ہے۔صلح و آشتی کے دوران فریقین کی نیت صاف ہونی چاہیے۔ اگر نیت میں کوئی خرابی ہو یا ذاتی مفادات کو ترجیح دی جائے تو صلح کامیاب نہیں ہو سکتی۔

ا سلام میں صلح و آشتی کو مختلف سطحوں پر اپنانے کا حکم دیا گیا ہے، جن میں درج ذیل اقسام شامل ہیں۔ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے انفرادی جھگڑوں اور تنازعات کو صلح کے ذریعے حل کرے۔ مثلاً اگر دو افراد کے درمیان کوئی مالی یا ذاتی تنازع ہو، تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے باہمی رضا مندی سے صلح کر لیں۔اسلام میں خاندانی تعلقات کو مضبوط رکھنے کے لیے صلح کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان کوئی اختلاف پیدا ہو جائے، تو اسلام میں انہیں افہام و تفہیم سے حل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اور اگر تمہیں ان دونوں (میاں بیوی) کے درمیان اختلاف کا اندیشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کرو‘‘ (سورۃ النساء 4:35)اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ خاندانی مسائل کو حل کرنے کے لیے باہمی مشاورت اور صلح ضروری ہے۔معاشرتی سطح پر بھی اسلام نے صلح و آشتی کی بہت ترغیب دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کسی کو لوگوں کے درمیان صلح کروانا بہت بڑا عمل ہے‘‘معاشرتی صلح سے مراد افراد اور گروہوں کے درمیان اختلافات کو دور کرنا اور معاشرے میں امن و امان قائم رکھنا ہے۔
اسلام نے بین الاقوامی سطح پر بھی صلح و آشتی کی تعلیم دی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اور اگر وہ (دشمن) صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ ‘‘ (سورۃ الانفال 8:61)۔یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جنگ کی بجائے ہمیشہ صلح کو ترجیح دی جائے اور بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔اسلام میں صلح و آشتی کے بے شمار فوائد ہیں۔اس سے معاشرتی ہم آہنگی قائم ہوتی ہے اور معاشرے میں امن و سکون پیدا ہوتا ہے۔جب لوگ اپنے اختلافات کو صلح کے ذریعے حل کرتے ہیں، تو یہ ان کے ذاتی سکون اور خوشحالی کا باعث بنتا ہے۔صلح و آشتی سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے، کیونکہ یہ عمل قرآن و سنت کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔اس طرح صلح و آشتی اسلامی تعلیمات کا ایک لازمی حصہ ہے، جس کے ذریعے معاشرتی تنازعات اور اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کیا جاتا ہے۔ اسلام ہر سطح پر صلح کو فروغ دیتا ہے، خواہ وہ انفرادی ہو، خاندانی، معاشرتی یا بین الاقوامی۔ صلح و آشتی کے ذریعے نہ صرف معاشرتی امن و استحکام حاصل ہوتا ہے بلکہ یہ اسلامی اخوت اور بھائی چارے کو بھی فروغ دیتا ہے۔
********