تاثیر 20 اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
مظفر پور (نزہت جہاں)
گری راج سنگھ کی طرف سے شروع کی گئی ہندو سوابھیمان یاترا کا بنیادی مقصد فرقہ پرستی کو ہوا دینا اور ہندو مذہب، دولت اور زمین کی حفاظت کے نام پر بی جے پی کی حمایت کو مضبوط کرنا ہے۔ اس یاترا کو لے کر بی جے پی کے ریاستی صدر سمیت دیگر لیڈروں نے اختلاف کا اظہار کیا ہے، لیکن اس کے باوجود یاترا جاری ہے، جس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ پارٹی لیڈروں نے رسمی اختلاف کا اظہار کیا ہے یا دہلی قیادت کی حمایت حاصل ہے۔ گری راج کے بیانات، جس میں انہوں نے پاکستان میں مندر میں گائے کا گوشت پھینکنے اور ہندو لڑکیوں کے اغوا کا ذکر کیا ہے، اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہونے کا امکان ہے، جس سے ہندو مسلم تعلقات میں پھوٹ پڑنے کا امکان ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود ریاستی حکومت کو ایسی سرگرمیوں کو روکنے کا چیلنج درپیش ہوگا۔ نتیش کمار کے لیے یہ ایک بڑا امتحان ہے، کیوں کہ یہ دورہ ان کے اقتدار کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ میڈیا کو بھی اس دوران متوازن اور ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی ضرورت ہے تاکہ سماجی ہم آہنگی برقرار رہے۔ کٹیہار میں گری راج سنگھ نے اپنے بلند حوصلہ کے ساتھ گرجتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں صرف ہندو ہی رہیں گے اور لو جہاد کرنے والے بنگلہ دیشی دراندازوں کو بھاگنا پڑے گا۔
سیمانچل میں این آر سی قانون پر عمل درآمد شروع کرنے کی ضرورت بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سفر ہندوؤں کی عزت نفس کی حفاظت اور ہندو سماج کے اتحاد کو فروغ دینے کے مقصد سے کیا ہے، وہیں دوسری طرف پورنیہ میں انہوں نے کہا۔ کہ اس سفر کا مقصد غیر ملکی مسلمانوں سے اِس ملک کے مسلمانوں کو بچانے کے لیے نکلا ہوں انہوں نے کہا کہ لو جہاد اور لینڈ جہاد سے ہونے والے نقصان کی فکر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کیرالہ سے شروع ہونے والا لو جہاد اب اس سیمانچل تک پہنچ چکا ہے، اس لیے سیمانچل کی بیٹیوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
،گری راج سنگھ کے اس سفر کے دوسرے لیڈر سوامی دیپانکر نے کہا کہ یہ سفر کسی خاص پارٹی پر نہیں بلکہ ملک کے 100 کروڑ ہندوؤں کی طاقت پر ہے، مذہب کوئی ذات نہیں، بلکہ متحدہ ہندو کی طاقت ہے اس سرحدی علاقے میں دراندازوں کی دراندازی کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ انتہائی حساس سمجھا جانے لگا ہے۔ وہیں مرکزی وزیر نے مہنگائی، بے روزگاری، خواتین کی حفاظت پر کوئی بھی جملہ کہنا مناسب نہیں سمجھا، اپنے خطاب کے دوران راجد، کانگریس، مجلس اتحاد المسلمین، پپو یادو سبھی پر طنز کیا مرکزی وزیر نے کہا کہ حیدرآباد میں مورتی کو مسمار کردیا گیا حقیقت تو یہ ہے کہ اُس مورتی کو ہندو نوجوان نے ہی مسمار کیا تھا اُس کو پولیس نے گرفتار بھی کر لیا تھا، مرکزی وزیر کے اک جملہ سے مرکزی سرکار پر بھی سوال ہونا اب لازمی ہے اسلئے کہ جب مرکز میں بھاجپا کی سرکار ہے تو ہری دوار باروڈ کے ڈھیر پر کیسے ہے اِس سے صاف ظاہر ہے کہ وزیرِ داخلہ کی خُفیہ ایجینسی ناکام ہے،