کون بنے گا ہریانہ کا وزیر اعلیٰ ؟

تاثیر  ۷  اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

آج 8 اکتوبرہے۔یعنی آج یہ طے ہو جائے گا کہ جموں و کشمیر اور ہریانہ اسبملی انتخابات کے نتائج کس شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ ایگزٹ پولزکے اشارے کی بنیاد پر اگر بات کی جائے تو جموں و کشمیر کی تصویر تھوڑی دُھندلی نظر آرہی ہے۔ مگرہریانہ میں کانگریس اس قدر مطمٔن ہے کہ وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش رکھنے والے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اپنی دعوے داری بھی پیش کرنے لگے ہیں۔ایگزٹ پول کے رجحانات کے مطابق اس بار ہریانہ میں اس بار کانگریس اقتدار میں آسکتی ہے۔شاید اسی وجہ سے وہاں وزیر اعلیٰ بننے اور بنانے کی  بات بھی ابھی سے شروع ہو گئی ہے۔ریاست کے سابق وزیر اعلی بھوپیندر سنگھ ہڈا بھی وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنا دعویٰ یہ کہتے ہوئے درج کرایا ہے کہ وہ ابھی ریٹائر نہیں ہوئے ہیں۔ تاہم کانگریس ہائی کمان کی طرف سے ابھی تک کوئی نام سامنے نہیں آیا ہے۔
ہریانہ کی زمینی حقیقتوں سے واقف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاست کے لوگوں نے اس بار بی جے پی کو اقتدار سے ہٹانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ اس بار کے انتخابات میں 36 برادریوں کو کانگریس کے ساتھ کھڑا دیکھا گیا ہے۔ ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ اس بار کانگریس کی حکومت ہوگی۔ اس بار کانگریس کا ووٹ شیئر بھی بڑھے گا۔ یہاں تک کہ جب گزشتہ لوک سبھا انتخابات ہوئے تھے، تب بھی کانگریس کے ووٹوں میں اضافہ ہوا تھا اور اس نے لوک سبھا کی 10 سیٹوں میں سے 5 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ چنانچہ یہ طے مانا جا رہا ہے کہ کانگریس کی کارکردگی اسمبلی ا تنخابات میں بھی ہر جگہ اچھی ر ہے گی۔ سابق وزیر اعلیٰ بھوپیندر سنگھ ہڈّا کا کہنا ہے کہ 2014 سے پہلے ہماری حکومت کےکام کا گراف بہت بہتر تھا۔ لیکن 2014 سے 2024 تک ہریانہ ہر میدان میں پیچھے چھوٹ گیا۔کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کی بات ہو رہی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پہلے نہ کھاد پر ٹیکس تھا، نہ کیڑے مار ادویات پر، ڈیزل پر بھی ٹیکس کم تھا، لیکن ا ن لوگوں (بی جے پی والوں) نے سب کچھ تہس نہس کر دیا ۔ اب ہم غریبوں کے لیے کام کریں گے۔ جب مجھے ہریانہ میں خدمت کرنے کا موقع ملا تھا، تو میرا براہ راست پیغام تھا کہ بدمعاشو، یا تو غنڈہ گردی چھوڑ دو یا ہریانہ چھوڑ دو۔ بھوپیندر سنگھ ہڈا  ہریانہ کے عوام کے تئیں ممنونیت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں اگرکانگریس اقتدار میں آتی ہے تو وہ ایم ایس پی کو قانونی ضمانت دے گی۔
ہریانہ اسمبلی انتخابات کے حوالے سےجب سے ایگزٹ پولزکے اشارے سامنے آنے لگےتھے ، تبھی سے یہ سوال بھی لوگوں کے ذہن میں گردش کرنے لگا تھا کہ’’ کیا کانگریس اب بی جے پی پر بھاری پڑنے لگی ہے ؟‘‘ آج اگر انتخابی نتائج کانگریس کے حق میں آتے ہیں تو ظاہر ہے مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں بھی کانگریس کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔ ہریانہ کے فیصلے سے یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ ہندی مرکز میں اپوزیشن کا اثر بڑھ رہا ہے، جو ایک دہائی سے بی جے پی کے لیے ناقابل تسخیر قلعہ رہا ہے۔ کانگریس نے دو سال قبل ہماچل پردیش پر قبضہ کیا تھا اور حال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں اس نے اتحادی سماج وادی پارٹی کے ساتھ مل کر اتر پردیش میں بی جے پی کو نقصان پہنچایا۔ پڑوسی دہلی اور پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی ہی حکومت ہے۔ یہ مانا جا رہا ہے کہ جموں و کشمیر اورہریانہ اسمبلی انتخابات کے فوراََبعد الیکشن کمیشن مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کی تاریخوں کا اعلان بھی کر سکتا ہے۔
ہریانہ میں بی جے پی کی ممکنہ شکست کے حوالے سے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ تین زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج سے ہریانہ کا ماحول پہلے ہی بی جے پی کے خلاف ہو چکا تھا۔ مظاہروں میں جاٹوں کا غلبہ تھا، جو 2014 میں پنجاب کے کھتری منوہر لال کھٹر کو وزیراعلیٰ کے طور پر منتخب کرنے پر بی جے پی سے ناراض تھے۔ بی جے پی کے سابق ایم پی برج بھوشن شرن سنگھ کی طرف سے مبینہ جنسی ہراسانی کے خلاف پہلوانوں کے احتجاج نے گزشتہ سال بی جے پی کے خلاف جاٹوں کا غصہ بڑھا دیا تھا۔ ونیش پھوگاٹ، ساکشی ملک اور دیگر کی لڑائی نہ صرف پہلوانوں کے لیے انصاف کی لڑائی بن گئی بلکہ جاٹ برادری کے وقار کی بحالی کا بھی مسئلہ بن گیا۔ ونیش پھوگاٹ، جو کہ جولانہ سے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں، نہ صرف ریاست اور ملک بھر کی نوجوان خواتین کے لیے بلکہ مردوں کی اکثریت والی جاٹ برادری کے لیے بھی ایک نئے آئیکن کے طور پر ابھری ہیں۔ جب وہ ایک میٹنگ میں مردوں کے سامنے خواتین کے اختیارات کی بات کر رہی تھیں ، تو لوگ ا ن کی تقریر کو ہریانہ کے معاشرے میں آنے والی سماجی تبدیلی کی علامت کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ دوسری جانب اس الیکشن میں ہریانہ کی علاقائی پارٹیوں انڈین نیشنل لوک دل اور جننائک جنتا پارٹی کا بھی کوئی اثر نظر نہیں آیا۔مبصرین کا ماننا ہے کہ علاقائی پارٹیوں کی کمزوری بھی بہت حد تک کانگریس کی طاقت ثابت ہوئی ہے۔دوسری طرف ہریانہ کے انتخابی مزاج کو بدلنے میں دلت برادری کا بھی اہم کردار رہا ہے۔اگرچہ ہریانہ کی سیاست پر جاٹوں کا غلبہ ہے، لیکن دلت آبادی کا تناسب بھی تقریباََ 21 فیصد ہے۔جاٹ برادری کے ساتھ ساتھ دلت بستیوں کے لوگوں نے بھی اس بار کانگریس کی حمایت کی ہے۔ ریاست سوہنا   حلقہ کی ایک دلت کالونی میں (جس کا ایک بڑا حصہ گڑگاؤں ضلع میں ہے) میں آباد لوگوں نے پارٹی کی سرسا ایم پی کماری شیلجا کو وزیراعلیٰ بنانے کا دعویٰ  پیش کیا ہے۔ شیلجا ہریانہ کی ایک قد آور دلت خاتون لیڈر ہیں۔ رندیپ سورجیوالا کا نام بھی ممکنہ وزیر اعلیٰ کی فہرست میں ہے، مگربھوپیندر سنگھ ہڈّا تو گزشتہ اتوار کو ہی دہلی پہنچ گئے تھے۔ ابھی اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے کہ کون بنے گا ہریانہ کا وزیر اعلیٰ ؟